جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر اور متحدہ مجلس عمل کے رہنما میاں محمد اسلم صاحب قومی اسمبلی این اے ٥٤،٥٣ الیکشن لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔لگتا ہے کہ وہ انتخابی ایڈجسمنٹ کے بعدکے بعد دونوں میں سے کسی ایک سیٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ ویسے میاں محمد اسلم ٢٠٠٢ء میں بھی متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبرمنتخب ہوئے تھے۔٢٠٠٢ء کا الیکشن جیتنے کے بعد اسلام آباد ضلعے میں ترقیاتی کاموں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے ان کی خدمات کے چرچے زدعام ہیں۔ میاں محمد اسلم نے اپنے حلقے کے کارکنوں کی عید ملن پارٹی ،سیکٹر جی ٩مرکز میں کراچی کپمنی کے پاس کرکٹ گرئونڈ میںرکھی۔ اس میں متحدہ مجلس عمل کی مرکزی قیادت نے بھی شرکت کی۔متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل لرحمان صاحب،نائب سراج الحق صاحب،نائب صدر پیر اعجاز ہاشمی صاحب،سیکرٹیری جنرل لیاقت بلوچ صاحب اور متحدہ مجلس عمل کے دیگر مرکزی اور مقامی رہنمائوں نے شرکت کی۔کارکنوں کی عید ملن پارٹی، میاں محمد اسلم کی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ بن گئی۔
صاحبو!پاکستان اسرائیل کی طرح، مذہب کی بنیاد یعنی لا الہ الاللہ کے مستانہ پر وجود میں آیا تھا۔ہندو کہتے تھے کی قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یعنی سیکولرزم کی بنیاد پورے ہندوستانی صرف ایک قوم ہے۔ مگر قائد اعظم نے کہا کہ نہیں مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ برصغیر میں ایک نہیں دو قومیں بستی ہیں۔ ایک ہندو اور دوسری مسلمان قوم۔پھر برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق نعرے لگائے۔ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ۔بن کے رہے پاکستان۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ دو قومی نظریہ کے تحت قائد اعظم محمد علی جناحکی قیادت میں مسلمانان برصغیر نے انتھک محنت کی بنیاد پر نظریاتی طور پر، جمہوری جدو جہد کے ذریعے مثل مدینہ پاکستان حاصل کیا۔مگر پاکستان بننے کے اور خاص کر قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت جنہیں کسی خاص موقعہ پر کھوٹے سکے کہا تھا، نے بانی پاکستان قائد اعظم کے دو قومی نظریہ انحراف کیا۔ رفتہ رفتہ پاکستان کو ہندوئوں کے سیکولر نظریہ پر ڈھالنا شروع کیا۔پاکستان کی اسلامی جماعتوں نے اس کی مزاہمت کی اور اسلامی دستوری مہم شروع کی۔ بعد میںاسی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی وزیر اعظم شپ کے دوران١٩٧٤ء پاکستان کا متفقہ اسلامی آئین بنا۔ اس اسلامی آئین پر ملک میں باری حکومتیں کرنے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے عمل نہیں کیا۔ بلکہ ملک کو سیکولرزم کی طرف موڑا۔
ان حالات میں ملک کے اسلامی اور دو قومی نظریہ کے محافظ اور قائد اعظم کے سچے جانشینوں نے متحدہ مجلس عمل بنائی اور ملک کو اسلام کی طرف گامزن کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کے رہنمائوں نے کارکنوں سے سے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کے منشور کو عوام تک پہنچائیں۔ گھر گھر جا کرعوام کو بتائیں کہ پاکستان کے عوام کی دیرینہ خواہشات کے مطابق متحدہ مجلس عمل انتخابات جیتنے کے بعد ملک میں اسلامی نظام ِحکومت قائم کرے گی۔سیکولرزم،روشن خیالی، مادر پدر آزادی اور فحاشی کا راستہ روکنے کے لیے متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔ متحدہ مجلس عمل ٢٠١٨ء کے انتخابات جیت کر پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی طرز اسلامی نظام ِ حکومت قائم کرے گی۔جس سے ملک میں کرپشن ختم ہو گی۔ دہشت گردی ختم ہو گی۔ اسلام کی نظام عدل قائم ہوگا۔لوگوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق ملیں گے۔پاکستانی عوام کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔مہنگائی ختم ہو گی۔عوام کو روزگار ملے گا۔ سودی نظام معیشت ختم کر کے شراکت کی بنیاد پر معیشت چلے گے۔پانی کے نئے ذخاہر تلاش کیے جائیں گے۔ آزاد خارجہ پالیسی بنائی جائے گی۔
اسلام آباد سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار میاں محمد اسلم نے عوام کوخطاب کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں ٢٠٠٢ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا تو میں نے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور قومی مسائل، اسلام آباد میں سڑکوں اور سوریج کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے مسئلہ پانی پر کام کیا۔ میں نے پارلیمنٹ میں کہا دارلخلافہ کے نقشے کے مطابق ابھی تک ایک تہائی آبادی ہوئی ہے ۔ دو تہائی آبادی ابھی باقی ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں پانی کا مسئلہ ہے۔ اور جب آبادی مکمل ہو جائے گی تو اللہ نہ کرے، اسلام آباد کے باسی پانی کے کترے کترے کو ترسیںگے۔ میں نے پانی کے مسئلہ کے لیے انجنئیرزکی ایک سروے ٹیم بنائی۔اسے اس کام پر لگایا کہ اس امر کی سروے رپورٹ تیار کی جائے کہ کیا دریائے جہلم یا دریائے سندھ سے اسلام آباد تک پانی لانا ممکن ہے؟ سروے ٹیم نے دن رات سخت محنت سے رپورٹ تیار کی کہ ہاں دریائے سندھ کا پانی اسلام آباد تک لانا ممکن ہے۔اس رپورٹ کو میںسی ڈی اے سے منظور کرایا۔ پھر اسے میں نے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا۔ پارلیمنٹ نے بھی اس عظیم منصوبے کو منظور کیا۔ ٢٠٠٢ء کے اس کے لیے فنڈ مختص کرنے تھے کہ پارلیمنٹ کا وقت ختم ہو گیا۔ بعد میں دو دفعہ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ۔پیپلز پارٹی اورنون لیگ کے اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے ممبران لوگ منتخب ہوئے۔ مگر اس پاس شدہ پانی کے منصوبے پر کان دھرے گئے اور نہ ہی کے لیے فنڈ مختص نہیں کرائے گئے۔ جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہ ہو سکا۔ انشاء اللہ اگر میں ٢٠١٨ء کی انتخابات میں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا تو میں اسلام آباد کے لیے اس پانی عظیم منصوبے کو پھر سے زندہ کروں گا اور اسلام آباد کے پانی کے مسئلہ کو ہمشیہ کے لیے حل کرائوں گا۔
سراج الحق صاحب نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور ان کے متوقع امیدواران قومی وصوبائی اسمبلی کرپشن سے پاک ہیں۔ صادق و امین ہے۔ ان کی نہ آف شور کمپنیاں ہیں نہ ہی انہوں نے قرضے معاف کرائے ہیں۔ اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں کرپشن کی وجہ سے ترقی رکی ہوئی ہے۔ سیاست دانوں،سرمایاداروں اور جاگیرداروں نے ملک کا پیسا لوٹ کر اپنے محلات بنائے۔پاکستان کے غریب عوام کی محنت سے کمایا ہوا پیسابیرون ملک منتقل کیا۔ ہم انتخابات میں کامیاب ہو کر ملک کے اندر اور ملک سے باہر منتقل کیا گیا پیسا واپس لائیں گے اور پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کریں گے۔ ہم کامیاب ہو کر کشمیر کی آزادی کے لیے روڈ میپ دیں گے۔
متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل لرحمان نے ملک کے اندرونی اور بیرونی حالت کاتجزیہ کرتے ہوئے کارکنوں سے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کی اندرونی اور بیرونی حالت خراب ہیں۔ سیاست دان اپنے اپنے مفادات کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ لوٹے ملک کی دو پارٹیوں سے نکل نکل کر ایک نئی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ نیا پاکستان بنانے والی پارٹی میں شامل ہو کر نیا پاکستان بنائیں۔ ان کے لیڈر کے نزدیک نیا پاکستان بنانے کے بجائے ناچ گانے اور قوم کی بیٹیوں کو جلسوں میں بے حیائی اور مخلوط ڈانس پارٹیوں میں لگا دیا۔ ملک کے فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں بیرونی مداخلت کرنے پر کہا کہ ملک میں مختلف طبقوں کو لڑیا جا رہاہے۔جیسے عراق، لیبیا،شام میں کیا گیا۔ اسلامی ملکوں میں دہشت گردی کو فروخ دیا گیا۔ جیسے فلسطین ،کشمیر،یمن،برما میں۔ متحدہ مجلس عمل موجودہ انتخابات جیت کر ملک ے کے اند رونی اور بیرونی حالت کو درست کرے گی۔ ملک میں اسلام کا بابرکت نظام ِ حکومت قائم کیا جائے گا۔کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ملک سے دہشت گردی ختم ہو گی۔ برابری کی بنیاد پر آزاد خارجہ پالیسی بنائیں گے۔کارکن متحدہ مجلس عمل کے منشور کو گھر گھر پہنچائیں۔ آخر میں کامیاب پروگرام منعقد کرنے پر مبارک دی۔دعا کے بعد پروگرام ختم ہوا ۔آخر میں کارکنوں کو کھانا پیش کیا گیا۔