مہمند ایجنسی ( شکیل مو مند سے) مو مندایجنسی میں جہاں اور مسائل کے انبار لگے ہیں وہاں صحت کا مسئلہ بھی ایک گمبھیر شکل اختیار کر چکا ہے،۔ مو مندایجنسی میں صر ف پولیو ہی نہیں بلکہ ایک اور خطرناک بیماری ہپاٹا ئٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہاہے اس مرض کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ سرطان سے بھی خطرناک مرض ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پورے مومندایجنسی میں اس جان لیوا مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ٤٠٠ تک پہنچ گئی ہے۔اس مرض کی علاج یا روک تھام کیلئے محکمہ صحت نے ابھی تک مناسب اقدامات نہیں کئے ہیںجسکی وجہ سے اس مہنگے علاج کیلئے بے روزگاری کے شکار مو مندایجنسی کے عوام گھر اور زمینیں بیچ کر اس موذی مرض کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب یہاں کے ہسپتالوں کی حالت زار بھی ناگفتہ بہ ہے، سول ہسپتال میں ایک دلکش بلڈنگ تو کھڑی کی گئی ہے لیکن ابھی تک ان میں سٹاف کی کمی ہے، اگر یوں کہا جائے کہ اس کا اپنا سٹاف ہے نہیں تو بجا ہوگاایک تکلیف دہ صورتحال یہ بھی ہے کہ ابھی تک اس ہسپتال میں کسی اسپشلسٹ ڈاکٹر کو تعنیات نہیں کیا جاسکا ہے جسکی وجہ سے مو مندکے مکین پشاور کے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اگر یہاں اسپشلسٹ ڈاکٹر ز ہوتے تو ایک طرف عوام کو نزدیک علاج کرانے کی سہولت مل جاتی دوسری طرف پشاور کے ہسپتالوں پر بھی خاطر خواہ رش کم ہو جاتا۔ ہارٹ اٹیک کی علاج تو کجا یہاں تک کہ سانپ اور بھیچوںکے کاٹنے والوں کو بھی پشاور لیجانا پڑتا ہے،۔
۔مو مند کے باسیوں کوہسپتال سے متعلق سب سے ذیادہ شکایت ڈلیوری روم اور ڈینٹل بلاک سے ہے ، ڈلیوری روم سرکاری ہوتے ہوئے بھی عوام سے بھاری رقم زیری (نوید)کے نام پر وصول کی۔۔محکمہ صحت فاٹا مو مندایجنسی کے عوام پر رحم کھا کر ہسپتالوں میں اسٹینڈرڈ ادویات فراہم کرے، شعبہ حادثات میں سہولیات فراہم کرے اور تحصیل کے سطح پر اسپشلیسٹ ڈاکٹرز تعنیات کرے تو عوام بجا طور اس سے مستفید ہو سکے گے۔