دورِ جدید کی خوبصورت اور کار آمد ایجاد موبائل فون نے جہاں انسانی زندگی کو بیشمار سہولیات سے نوازا، وہیں ہمیں اخلاقی پستی اور بے حِسی کے عروج پر لے جانے میں بھی اہم کردار ادا کیاہے اور تصویر کشی کے ساتھ ساتھ سیلفی کا ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا کہ جس نے انسانیت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ہم زندگی کے ہر لمحے کو موبائل کیمرہ میں قید کرنے کے شوق میں اپنے پرکھوں کی محبت ،خلوص اور ہمدردی بھری خوبصورت روایات کو یکسر بھول کر ایک ایسی شرمناک اور تکلیف دہ عادت یا مشغلے کا شکار ہو گئے کہ جس سے آگے صرف اور صرف اخلاقی اقدار و روایات کی موت نظر آتی ہے۔
آئیے! چند سال پیچھے چلتے ہیں کہ جب کسی مرتے ہوئے انسان، جانوریا چرند پرند کو پانی پلانے کی کوشش کی جاتی تھی۔تکلیف سے کراہنے والے کے ساتھ ہمدردی کی جاتی تھی۔خوفزدہ کو تسلی دی جاتی تھی،بیمار کو دلاسہ دیا جاتاتھا ،روتے ہوئے کو شفقت سے چُپ کروایا جاتا تھا۔۔برہنہ ہوتے ہوئے انسان کو بتایا جاتا تھا کہ آپ اپنے کپڑے ٹھیک کریں۔نیند کے دوران بے خبری میں برہنہ ہو جانے والے پر کپڑا ڈالا جاتا تھا۔مگر خیر ہو موبائل کی جس نے ہماری عقل ،انسانیت اور سماجی غیرت کو چھین کر ہمارے ضمیر کو بھی میٹھی نیند سلا دیا۔
اب صورتحال بالکل برعکس ہے ،مرتے ہوئے،روتے ہوئے،خوفزدہ،بیمار،تکلیف سے کراہتے ہوئے،بے خبری میں برہنہ ہوتے ہوئے۔سب کے سب ہی ”تصویر کشی” یا” وڈیوز”(کیمروں) کی زد میں ہیں اور ہم لوگ نہ صرف یہ کہ ان سب کی تصویر یا وڈیو بناتے ہیں بلکہ ان پر مزاحیہ جملے لکھ کر نیٹ پر وائرل کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ہمارا ضمیر اس قدر مردہ ہو چکا ہے کہ کوئی بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ جس کی وڈیو یا تصویر بنا کر وائرل کی جا رہی ہے اس کے ارد گرد کے دوست،احباب، رشتے دار،محلے دار یا ملنے ملانے والے اپنے دل و دماغ میں اس کے بارے میں کیا تاثر قائم کریں گے ۔ اُس کا کس طرح مذاق اُڑائیں گے، اُس پر کس کس طرح کے آوازے کسے جائیں گے اور پھر اس کے دل پر کیا گزرے گی۔۔ذرا سوچئے !کہاں گیا خوفِ خدا۔۔۔؟ اورکہاں گیا یہ احساس کہ خدانخواستہ کبھی ہم بھی اُن کی جگہ پر ہو سکتے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہمیں انسانوں کی تعظیم و تکریم کا خیال رکھنا چاہئے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے،ہمارا یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہم دوسروں کا تماشہ بنا کر خوشی محسوس کرنے لگے ہیں۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حرکت ہمارے اندر کی حیوانیت ہے یا فرسٹریشن۔۔کہ جس کے باہر نکلنے پر ہم خود کو بہت بڑے فاتح تصور کرتے ہیں۔
معصوم بچوں ،عورتوں اور بزرگ شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تشدد کے واقعات کی تصاویر اور وڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا سلسلہ بھی روزبروز وسعت پا رہا ہے ،”یوٹیوب”پر چینل بنانے اور اس کے ذریعے ڈالر کمانے کا عارضہ میں تسلسل کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ،اور ان چینلز پر بھی ایسی ایسی وڈیوز اَپ لوڈ کی جا رہی ہیں کہ جو انسانی سوچ و فکر کی پستی کی عکاس ہیں ،اخلاقی حدود و قیود سے آزاد سوشل میڈیا پر چلنے والی یہ وڈیوز نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں۔اور اس کے اثرات آئندہ نسلوں کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ گھریلو خواتین بھی اپنے بچوں کو رُلا چڑا کر اُن کی گفتگو نیٹ پر پیش کرنے میں لگی ہیںاور سیلفی کے تو کیا ہی کہنے۔۔اس کے لئے منہ ٹیڑھا کر کے انگلیوں سے V کا نشان بنانے والے اللہ ہی جانے کون سا میدان فتح کرتے ہیں کہ جس کی خوشی میں” وکٹری ”کا نشان بنا کر کیمرے میں محفوظ کرتے ہیں۔سیلفی کے شوقین ایسے لوگوں کی اکثریت ایسی ہے کہ جنہیں کہیں بھی پبلک مقام پر اپنی سیلفی بنانے وقت احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے خوبصورت چہرے کی بیک گراؤنڈ میں بہت سے بے خبر اجنبیوں کے ”ٹیڑھے میڑھے” چہرے بھی ان کے کیمرے میں محفوظ ہو رہے ہیں۔سلفی بنانے کا جنون بھی انتہاء کو پہنچ چکا ہے ،اور سلفیاں بناتے کتنے ہی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موت کی وادی میں اتر گئے ۔لیکن ہمیں اس کے باوجود اس بات کا احساس نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں ۔
سوچنے کی بات یہ نہیں ہے کہ یہ سب اخلاق سے گری ہوئی حرکات یا گری ہو ئی ذہنیت ہمارے معاشرے میں کہاں سے آئی اور پھیل گئی بلکہ سوچنے کی بات ہے کہ آخر بے حِسی کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔۔؟کب تک ہم دوسروں کا تماشہ بنا کر عارضی خوشی محسوس کرتے رہیں گے ۔اور آخرکب تک ہم انسانیت کی تذلیل اور بے حرمتی میں ملوث رہیں گے ۔۔؟کب تک ہم اور ہمارے پیارے دوسروں کے موبائل کیمرہ کی زد سے بچے رہیں گے۔۔؟۔آئیے !سچے دل سے توبہ کریں اور یہ تماش بینی، یہ ٹھٹھہ مذاق چھوڑ کر اپنی مشرقی روایات کو مضبوطی سے تھام لیں تا کہ آنے والی نسلیں ہماری خوبصورت اور محبت بھری روایات سے آشنا ہو کر اپنے ارد گرد کے ماحول کے لئے کا رآمد انسان اور وطنِ عزیز کے لئے مفید شہری بن سکیں۔