پشاور (جیوڈیسک) پشاور ہائیکورٹ میں غیر قانونی موبائل سموں کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی چیف جسٹس دوست محمد اور جسٹس ملک منظور نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نمبر ون میں ہونیوالی سماعت کے موقع پر موبائل فون کمپنیوں کے ڈیلرز پیش ہوئے جنہوں نے عدالت میں موقف اپنایا کہ غیر قانونی سم ایکٹی ویٹ کرنے میں موبائل کمپنیوں کے فرنچائزرز اور بڑے لوگ ملوث ہیں اور ملی بھگت سے یہ غیر قانونی سلسلہ جاری ہے سماعت کے موقع پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے نمائندے بھی پیش ہوئے۔
کیس کی سماعت کے موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ پی ٹی اے اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر رہی۔ انہوں نے اپنے نام سے نکلوائی گئی جعلی سم کی شکایت بھی کی لیکن پی ٹی اے نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے پی ٹی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ افغان کمپنیوں کی سم بغیر رومنگ کے کیسی چل رہی ہیں ملک جن حالات اور سیکورٹی رسک سے دوچار ہے ان میں ایسی لاپرواہی نہیں برتی جا سکتی۔
انہوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کو اس معاملے میں فوری طور پر تحقیقات کا حکم بھی دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ افغان سمیں بھتہ خوری اور اغوا میں استعمال ہو رہی ہیں عدالت عالیہ میں پی ٹی اے کے وکیل نے موقف اپنایا کہ بائیو میٹرک سسٹم بنایا جا رہا ہے جس کے ذریعے موبائل سم جاری کی جائیں گی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں ایسے سرمایہ کار نہیں چاہئیں جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیں اور ٹیکس بھی جمع نہ کرائیں۔
انہوں نے موبائل سم کے غیر قانونی اجرا پر کہا کہ یہ سیکورٹی رسک ہے اور پی ٹی اے اس معاملے میں موبائل کمپنیوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر افغانستان سے سمیں رومنگ پر بھی آئیں گی تو تین دن قبل پاکستانی کمپنیوں کو آگاہ کریں گی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے عدالت میں پیش نہ ہونے پر موبائل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کے قابل ضمانٹ وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے۔