تحریر :سجاد علی شاکر 2009جولائی کے مہینے کی ایک رات، حسین رُت ،رنگین شب اور دل آفروز سماں تھا ،ایک دیوانہ بہت خوش اپنی مستی میں گم ،خیالوں میں گنگناتا ہوا آج وقت سے پہلے ہی، گھر کی طرف چل دیا ،بتاتا چلو ان صاحب کا نام طارق محمود ،تمام دوست انکو طارق بی اے کے نام سے پکارتے تھےبی اے اس لیے ، ان صاحب نے بہت لمبا بی اے کیا تھا ، پورے پانچ سال بعد بی اے پاس کیا تھا ،سو دوستوں نے طارق بے اے نام ڈال دیا ۔طارق لاہور کے دل کاہنہ نو کے بازار میں فروٹ کی ریڑھی لگاتا ،اور اپنی زندگی کو خوب انجوائے کر رہا تھا ،آمدنی اتنی ہو جاتی تھی کہ ایک خوشحال زندگی گزاری جا سکے،دو دوست ریاض،اور شاہدجن کے ساتھ طارق کافی وقت گزارتا اور خوش رہتا۔ طارق کو محبت کرنے کا بہت شوق تھا،اسی وجہ سے ہر دوسرے دن کسی نئے چہرے کی محبت میں گرفت ہو جاتاتھا۔مگر اب کی بار کچھ خاص ہی بات لگتی تھی، کیونکہ آج کل یہ اپنے دوستوں سے دور ، اپنے فروٹ ریڑھی سے دور الگ ہی دنیا میں رہناشروع ہو گیا تھا،ہر وقت اس کے کان کے ساتھ موبائل ،اور صاحب محو گفتگو رہتے ،چہرے پر خوشی کے آثار ہر وقت رہتے،اورآج تو طارق سات بجے ہی گھر جا رہا تھا،
ریاض اور شاہد اس کے پاس آئے اور پوچھا کہ یار تو آج کل کس دنیا میں گم رہتا ہے ،کیا ہو گیا ہے تم کو؟کہیں پھر پیار تو نہیں ہو گیا ؟ کس سے ہوا ہے ؟ کون ہے ہماری بھابھی؟ کہا ں رہتی ہے؟ریاض نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ،مگر طارق بس یہاں سے بھاگ کر اپنے محبوب کی آغوش میں جانا چاہتا تھا ،جس وجہ سے آج جلدی ریڑھی بند کر دی تھی،ریاض اور شاہد سے جان چھوڑانے کا جب کوئی راستہ نہ ملا تو طارق نے موبائل بند کیا اور اپنی محبوبہ کی منت کی جان بس ٢ منٹ میں واپس کال کرتا ہوں۔ریاض : کتنی دیر لگادی بھائی تم نے ہمیں بتانے میں کے اب تجھے بڑے والا پیار ہو گیا ؟طارق: ( سانس پھولتے ہوئے ) یار ایسی بات نہیں ہے۔شاہد: رہنے دو ! اْس لڑکی کے بارے میں بتاو جس کے ساتھ ہر وقت موبائل پر چمٹے رہتے ہوں ؟طارق: ہاں بھائی۔ لڑکی کا نام عندلیب ہے۔ وہ بی۔اے کر رہی ہے۔ریاض: ( جلدی میں ) فیملی بیک گراوئنڈ؟طارق : فرسٹ کلاس فیملی ہے۔شاہد: وہ سب چھوڑو۔ لڑکی اور اْس کے خاندان والے کیسے ہیں ؟طارق : لڑکی اور اْسکے گھر والوں کی شرافت ؟
یوں سمجھ لوںکالونی میں اْن سے زیادہ معزز کوئی نہیں۔اتنا ہی بتایا تھا کے طارق بھاگ نکلا گھر کی طرف،ریاض اور شاہد ادھر ہی پریشان ہو گئے کہ اب کی بار یہ بچ جائے بس کیونکہ طارق تو پورا دیوانہ ہوا پڑا تھا ،اْسے کسی کی بھی کوئی پروا نہیں رہی تھی ۔یونہی دن گزرتے گئے اورطارق اپنی نئی نویلی محبت میں مگن ہوتا گیا اور ساری دنیا کو بھولتا گیا ۔دن ہو یا رات کوئی بھی ایسا پل نہ ہوتا تھا کہ طارق موبائل پر محو گفتگو نہ ہوتا،کاروبار کی طرف دھیان کم ہونے کی وجہ سے کام بھی کم ہونا شروع ہو گیا ، گاہک طارق سے آم اور سیب کے ریٹ پوچھتے رہتے ،مگر طارق صاحب کو فرصت ہی کہا تھی کہ وہ کسی اور کی بات سنے۔سارا ،سارا دن ، اور ساری، ساری رات اپنی محبوبہ سے باتیں کرنے ، اسی کے خیالوں میں ڈوبے رہنے سے اپنی نیندختم کر بیٹھا تھا ، سارا دن فروٹ کی ریڑھی پر رہتا اور رات ہوتے ہی اپنے گھر کی چھت پر لیٹ جاتا اور ساری رات باتیں کرتا رہتا ،اور جیسے ہی سورج اپنی آنکھیںکھولتا ، طارق کی اماں جان اسْے جگانے چھت پر جاتی تو صاحب اماں جان کی آہٹ سنتے ہی آنکھیں بند کر لیتے ،اور آماں جان کے جگانے پر اٹھتے اور نیچے آجاتے ۔ساری ساری رات جاگے رہنا، اورنہ کچھ کھانے پینے کی بدولت طارق کا رنگ زرد پڑ گیا ۔ آنکھوں کے گرد ہلکے نمایاں ہوتے گئے اور بیمار سا رہنا شروع ہوگیا تھا۔
Fever
ہر وقت ہلکا بخار رہتا۔مگر اپنی محبوبہ سے ایک بھی پل دور نہ رہتا ،سبھی گھر والوں کو بھی طارق پر شک ہونا شروع ہوگیااوردوست بھی ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتے رہتے، آج پورا سا ل ہو گیا تھا کہ طارق اورعندلیب کی دوستی ہوئے ایک دن کچھ یوں انکشاف ہواطارق اپنا موبائل ریاض کی دوکان پر چارجنگ پر لگا کر اپنی فروٹ ریڑھی پر پریشان بیٹھا تھا ،ہم سب دوست اسے دیکھ کر پریشان ہوئے جا رہے تھے کہ کیا بنا رکھا اس نے اپنا حال ،خیرریاض نے موقع کو غنیمت جان کر کوشش کی کہ یہ چیز ہے کیا جس نے اس کے دوست کا برا حال کر رکھا ہے ،ریاض نے موبائل چارجنگ سے اتارا اور دیکھا ،inboxمیں 51ایس ایم ایس تھے جسے پڑھنے کے بعد ریاض کے ہوش اُڑگئے، طارق صاحب اور مس عندلیب میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی ہے اورعشق کا بخار جناب کو موبائل پر ہی ہوا تھا۔ اور مکالمہ کچھ یوں چل رہا تھا۔ عندلیب :تم کل ہر صورت میں میرے سامنے آئومجھے تم کو دیکھنا ہے طارق:جان کیوں اتنی ضد کر رہی ہوں؟ عندلیب :کہا نہ کہ کل تم ہماری گلی میں آرہے ہوں ، تو آ رہے ہوں طارق:okایڈریس بتائو؟ عندلیب :جلو موڑ پارک، سٹریٹ نمبر 3نزد سوزو واٹر پارک ٹھیک 1.30pmپار ا جانا میں انتظار کروں گی۔ طارق : کوشش کروں گا ، وعدہ نہیں ۔ عندلیب : آج کے بعد مجھ سے بات نہیں کرنی تم نے ، مت آئو۔ طارق : جان ایسی بات مت کرو ہر حا ل میں تمہاری گلی میںآئوںگا۔
تمام ایس ایم ایس پڑھنے کے بعد ریاض کو سمجھ آگئی کہ آج یہ پریشان کیوں ہے۔ ریاض طارق کے پاس گیا اور کہا کہ یار ہماری بھی کبھی بات کرواں بھابھی سے ،کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے جو تم نے اپنی محبت بارے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا، ایسے ہی ڈائیلاگ شاہد نے بھی بولے ،طارق کو دوستوں نے احساس ڈلوایا کہ ہم تمہارے دوست ہے ۔طارق پہلے ہی پریشان تھا اورسوچ میں مگن تھا کہ میں کل کیا کروں گا ، دوستوں نے پریشانی کا سبب پوچھا تو جناب نے سب کچھ کھل کر بتا دیا،ساری باتیں سن کر ہم سب دستوں کو ہنسی بھی آئے اور دکھ بھی کیوں کہ ہمیں نظر آگیا تھا کہ یہ عشق اب ختم ہونے والا ہے۔ سب دوستوں نے مشورہ دیا ٹھیک ہے تم کل جائو ۔مل کر آئو پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ،طارق صاحب نے ایک کار بک کروائی ہوئی تھی ، جسے ریاض کے کہنے پر کینسل کر دیا گیا ،اور فیصلہ یہ ہوا کہ ہم بائیک پر بالکل سادہ جائے گے ،اگلے دن ٹھیک 12;pmپر ریاض اور طارق ٹوٹی ہوئی بائیک ، جس کا والیم بہت اونچا تھا پر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئے،
90منٹ کی مساوت کے بعد ہم عندلیب کی گلی میں پہنچے،ایڈریس کے مطابق عندلیب کے گھر کے باہر شریف ہاوس لکھا ہوا نظر آیا ہم پہنچان چکے تھے ، کہ یہی اس کا گھر ہے کیوںکہ عندلیب کے پاپا جی کا نام شریف تھا ہر وہ پاس ہی جلو پارک میں چئیرمین تھا،ساری صورتحال دیکھ کر ریاض نے اسی وقت سر آصف کو فون کیا اور سب کچھ بتایا اور کہا کہ آپ تیار رہیے گا آج اس دیوانے کا دل پھر ٹوٹنے والاہے۔طارق اور ریا ض گلی میں داخل ہوئے ، عندلیب کے گھر کی بیٹھک کا درواز ہ لا ئٹ آف ہونے کی وجہ سے کھلا ہو اتھا ، سامنے ہی عندلیب ء تھوڑے سے بچوں کے ہمراہ بیٹھی تھی ، اس نے اسی وقت ان دونوں کو دیکھ لیا ،ریاض اورطارق نے بھی سے دیکھ لیا ،عندلیب کو دیکھ کر طارق پھولے نا سمایا ، کیوں کہ وہ بہت خوب صورت تھی،4منٹ گلی میں رکنے کے بعد جوتوں کے ڈر کی وجہ سے وہاں سے نکلنا ہی غنیمت جاناابھی بی آر بی نہر کے پاس ہی پہنچے تھے کہ عندلیب کا فون آگیا طارق نے کال رسیوکی اوربات کی ، عندلیب نے پوچھا کہ کیا جو گلی میں کھڑے تھے وہ تم تھے؟
Lucky
طارق بہت خوش تھا ،وہ عندلیب کہ حسن کی تعریف کرنا چاہتا تھا ،مگر یہ عندلیب کو ایک آنکھ بھی نہیں بھایا تھا ،جیسے ہی طارق نے ہاںبولا ، عندلیب نے کال بند کر کے اپنا نمبر آف کر دیا۔طارق کی خوشی کو ایک پل میں ہی نظر لگ گئی تھی،اس کے آنسو نظر نہیں آرہے تھے مگر محسوس کئیے جا سکتے تھے، بڑا دھماکہ تو رات 11:21pmپر ہوا جب طارق سب دوستوں کے ہمراہ بازار میں تھا ، اوربار بار عندلیب ء کا نمبر ڈائل کر رہا تھا،جیسے ہی نمبر آن ہوا عندلیب نے کال اْٹھائی اور کہا آج ہمارے گھر میری آنٹی آئی اور ابو کے سامنے اپنی چادر اتار کر پائوں میں پھینک دی اور کہا بھائی اپنی بیٹی کا رشتہ مجھے دے دوں ،اور ابو نے ہاں کر دی ہے لہذا آج کے بعد ہماری بات نہیں ہو گی ، اتنی بات کر کے عندلیب نے فون بند کر کے نمبر آف کر دیا،جو کہ آج تک بند ہے،طارق بہت بھولا نکلا نہیں سمجھا کہ عندلیب نے ایسا کیوں کیا ؟آنکھوں میں آنسو لیے گھر چلا گیا،
اگلے روز بازار نہ آیا ،سر آصف نے کال کر کے بلایا اور دو کلو آم میٹھے والے ,اور4 سیب لیے اور طارق کو بولا اسے اچھے سے دھو کر لائواور برف بھی آموں میں ڈال کر لا ئو،پھر دونوں ٹوٹی پھوٹی بائیک پر بیٹھے ، سر آصف نے طارق کو نہر کنارے جانے کو بولا ، نہر پر پہنچنے کے بعد وہی لیکچرجو سر ہر دفعہ عشق سے نکام ہونے پر دیتے تھے وہ دیا ،یہ لیکچر لے کر طارق آدھا ٹھیک ہو جاتا تھا ، اسی لیے عندلیب کے ٹھکرا دینے کے بعد بھی طارق کچھ حد تک نارمل ہو گیا تھا،
مگر اب اس نے اب دیواروں سے باتیں کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اب دھیرے دھیرے دیواروں سے باتیں کرنے لگ گیاتھا۔سب دوست اس کے پاس آتے اسے وقت دیتے ، سمجھاتے ، بہلاتے لیکن بے سود، اب طارق کچھ نہیں سننا چاہتا تھا وہ بس اب صرف اور صرف تنہا رہنا چاہتا تھا۔ایک دن طارق پاس والی دیوار سے کچھ یوں بات کر رہا تھا ، کہ آج کے بعد میں کسی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دوں گا کبھی پیا ر نہیں کروں گا ، مگر افسوس طارق کا دل بہت بڑا ہونے کی وجہ سے پھر کسی نے اپنی جگہ جلدی بنا لی مگر اب کی بار عندلیب کی جگہ نجمہ کوملی۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480