تحریر : سید عارف سعید بخاری موبائل فون کی گھنٹی بجی صوفی صاحب نے فون اٹھا یا ایک نوجوان نے انتہائی خوبصورت اور محبت بھرے انداز میں موصوف کو خوشخبری سنائی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں آپ کا 5 لاکھ روپے کاانعام نکلا ہے اور آپ اسی نمبر پر اُسے دوبارہ کال کریں تاکہ آپ کی انعام حاصل کرنے کیلئے رہنمائی کی جا سکے۔ صوفی صاحب انتہائی غریب اور سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ 5 لاکھ روپے انعام کا سن کر وہ دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر مہربانی کی ہے اب حالات میں بہتری آئے گی۔ صوفی صاحب ان پڑھ اور ناسمجھ توتھے ہی مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنی اہلیہ سے مشاورت کی کہ یوں فون آیا ہے کیا کیا جائے ،اہلیہ نے بھی عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور انعام حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔
صوفی صاحب نے مذکورہ نمبر پر کال کی تو انہیں کہا گیا کہ آپ کا انعام تو نکلا ہے مگر آپ اپنا شناختی کارڈ نمبر اور ایک ہزار روپے کا ایزی لوڈ یا ایزی پیسہ فلاں نمبر پر بھجوا دیں تاکہ آپ کو انعام دیا جا سکے ، ساتھ ہی نوسرباز نے صوفی صاحب کو یہ مشورہ بھی ”مفت” ہی دے ڈالا کہ بھائی آج کل دہشت گردی کا زمانہ ہے آپ نے کسی سے انعام نکلنے کاتذکرہ نہیں کرنا ،پیسے کے لالچ میں لوگ قتل کر دیتے ہیں ،آپ کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔صوفی صاحب نے نوسرباز کے مشورے پر عمل کیا اور اپنے کسی عزیز ، دوست یا ہمدرد سے انعام کے بارے میں ذکر کرنا ہی مناسب نہ سمجھااور نوسر باز کی ہدایات کے مطابق تھوڑی تھوڑی کرکے مبلغ 35ہزار روپے کی رقم اسے بھجوا دی ،رقم ملنے کے بعد نوسرباز نے اپنا فون بند کر دیا ، اتنی بڑی رقم بھجوانے کے باوجود صوفی صاحب کوانعام کی رقم نہ مل سکی۔
انہوں نے موبائل کمپنی سے رجوع کیا تو انہوں نے صوفی صاحب کو اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی ، اس نوسر بازی پر داد رسی کیلئے تھانے جانے کو دل چاہا مگر تھانوں میں غریب کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے موصوف اس صورتحال کو جانتے ہوئے تھانے بھی نہ گئے ۔یوں وہ اپنے خون پسینے کی کمائی ایک خطیر رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے اور انعام بھی نہ ملا ۔یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ پاکستان میںموبائل فون پر اس قسم کی نوسربازی ، دھوکہ اور فراڈ ایک معمول بن چکا ہے ، ملک کا ہر دوسرا شہری راتوں رات امیر بننے کیلئے نت نئی اسکیمیں بناتا نظر آتا ہے ۔ بڑے بااثر لوگ بڑی بڑی اسکیمیں بنا تے ہیں جبکہ چھوٹے ذہن کے لوگ اپنی بساط کے مطابق ”فراڈ ” کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔محنت میں عظمت ہے ۔ اگر انسان محنت کے ذریعے اپنی زندگی میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے تو یہ بات واقعی قابل تعریف ہے ۔ لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ محنت سے ترقی کیلئے کافی وقت درکار ہوتا ہے لیکن اگر ”فراڈ” کیا جائے تو کم عرصے میں ہی کافی دولت اکٹھی کی جا سکتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان فراڈ سے پیسہ تو بنا لیتا ہے مگر حرام کی کمائی اُسے زندگی کا سکون نہیں دے پاتی ۔ایک فراڈ کامیاب ہو جائے تو انسان کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ اسی اس کام میں لگ جاتا ہے۔
Fraud Calls SMSs and Fake Prize Schemes
حقیقت تو ہے کہ اگر ہمارے احتسابی ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کریں تو کوئی شخص کسی کے ساتھ فراڈ نہیں کرسکتا اس وقت جبکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور سماجی رابطوں کو کافی حد تک وسعت مل چکی ہے ۔ سب سے زیادہ فراڈ ہی انٹرنیٹ ، فیس بک اور موبائل فون پر کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی طرف سے موبائل سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کے کامیاب دعوؤں کے باوجود نوسرباز اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اس کی مثال یوں ہے کہ گذشتہ دنوں ایک دوست کوموبائل فون پر میسج آیا کہ آپ کو ”بے نظیر سپورٹ پروگرام سے 35,000روپے مبارک ہوں،معلومات کیلئے 03496239235 پر کال کریں اُسے یہ پیغام موبائل فون نمبر :03433728397 سے موصول ہوا ،موصوف کا دل چاہا کہ ملنے والا میسج مذکورہ موبائل کمپنی کو ارسال کروں تاکہ وہ کوئی ایکشن لے ۔لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا ۔ اُس کا کہنا تھاکہ اس سے قبل بھی چند برس پہلے اسے اسی قسم کا میسج آیا تھا جس کی اطلاع اُس نے مقامی موبائل کمپنی کے دفتر میں دینے کی کوشش کی تو وہاں موجود عملے کے روئیے اور شکایت بارے بتائے گئے طریقہ کار کی وجہ سے اُس نے مذکورہ عملے سے زیادہ بات نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور وہاں سے چلا آیا۔
مذکورہ میسج کے غیر حقیقی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب موصوف نے ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام” سے امداد لینے کیلئے کوئی درخواست ہی جمع نہیں کروائی تو انعام یا امداد ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر وہ مذکورہ نمبر پر کال بیک کرے گا تووہ انعام لینے کیلئے اُسے ایزی لوڈ کی شکل میں رقم منگوائیں گے ۔ یوں کافی زیادہ رقم منگوا نے کے بعد مذکورہ نمبر ہی بند کر دیا جائے گا اوروہ اس ظلم پر کہیں آواز بھی نہیں اٹھا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناخواندگی اور لالچ کی وجہ سے لوگ ان نوسربازوں کے فراڈ کا شکار ہو جاتے ہیں۔لالچ بُری بلا ہے ، عقل و شعور رکھنے والے سمجھدار لوگ بھی بسا اوقات ان نوسربازوں کی باتوں میں آکر نقصان اُٹھا جاتے ہیں ،اور پھر اپنے لٹنے کی داستان بھی کسی کو سنانے سے گریزاں رہتے ہیں ،کہ دوست مذاق اڑائیں گے کہ اچھا خاصا سمجھدار انسان بھی دھوکا کھا گیا۔
پاکستان میں نوسربازوں کی کوئی کمی نہیں،یہ لوگ احتسابی اداروں کی آشیرباد سے بعض اوقات اس قسم کے دھندے کرتے ہیں۔ جب ہمارے ذمہ دار اداروں سے وابستہ افراد خود بھی شریک جرم ہوں گے تو مجرموں کو کون نکیل ڈالے گا ۔؟ ضرورت اس امر کی ہے سادہ لوح عوام لالچ میں آکر کسی نوسرباز کے ہاتھوں لٹنے سے بچیں ۔کسی انعام کی صورت میں اگر کوئی شخص کسی کو یہ کہے کہ آپ کا 5لاکھ کا انعام نکلا ہے اب آپ ہمیں ایک ہزار یا 10,20ہزار روپے کی رقم بذریعہ ایزی لوڈ ارسال کریں تو ہم آپ کو انعام کی رقم دیں گے تو سمجھ لیں کہ یہ فراڈ ہے ۔اس لئے ایسے کسی نوسرباز کے جھانسے میں ہر گز نہ آئیں ۔ رہا سوال حکومت کے ذمہ داران کا ۔۔تو ہماری وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اورپی ٹی اے حکام ،موبائل کمپنیوں کے ذمہ داران سمیت حکومت کے ارباب اختیار سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کو موثر بنانے کیلئے اقدامات پر توجہ دیں ۔ کیونکہ اب یہ دھندہ وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ جس کی روک تھام بہر حال حکومت کی ذمہ داری ہے۔