موبائل فون اور فری کال پیکجز

Mobile Phone

Mobile Phone

آج کے اس جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی اور اقتصادی خوشحالی نے اپنا مقام بنا لیا ہے۔ وہاں موبائل نے تہذیب جدید پر وہ اثر ڈالا ہے کہ اس کے مکدر ماحول سے قدیم تہذیب بھی متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکی۔ انسان ترقی کرتا کرتا چاند سے آگے نکل گیا ہے لیکن موبائل کی ایجاد اور ہر خاص و عام تک اس کی رسائی نے معاشرے پر بڑا گہرا اثر چھوڑاہے اور جدید تہذیب اور کالج کی مخلوط تعلیم نے تو سونے پہ سہاگہ کا کام کیا ہے۔

اب والدین کے ساتھ ساتھ لڑکوں اور لڑکیوں بلکہ چھوٹے بچوں کے پاس بھی موبائل پہنچ گیا ہے۔موبائل کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں پہ اس کے بے شمار نقصانات بھی ہیں۔یوں سمجھ لیجئے ایڈز جیسی موذی مرض ہے جو ہر بشر کی رگوں میں پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے نوجوان نشے میں غرق ہو کر اپنا مستقبل تباہ کر بیٹھتے تھے مگر اب اس کی جگہ موبائل نے لے لی ہے۔

ضرورت ہو نہ ہو گھر کے ہر فرد کے پاس موبائل ہونا ضروری ہے۔ موبائل فون نے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو ہی نہیں بلکہ شادی شدہ مر دو خواتین کو بھی اپنی لیپٹ میں لے لیا ہے۔ بھلائی و بُرائی کی تمیز ختم ہو رہی ہے۔ وقت اور توانائیوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ بد اعتمادی، ناچاقی و بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گھر اُجڑ رہے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں گھروں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنی زندگی، اپنا مستقبل برباد کر بیٹھتی ہیں۔ والدین کی عزت خاک میں ملا کر خود بھی ذلیل وخوار ہوتی، نشان عبرت بن جاتی ہیں۔ کسی سی بات کرو تو آگے سے جواب ملتا ہے۔ (کون سے پیسے خرچ ہوتے ہیں)۔

کہیں سے آئے کسی بھی مسیج کو فارورڈ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ بغیر اپنی عقل استعمال کیے، بغیر انپی تہذیب کو پرکھے اور بغیر اپنے ضمیر کی آواز سنے، جو باتیں بچوں سے چھپائی جاتی ہیں اور جو باتیں دو دوست آپس میں آمنے سامنے بیٹھ کر کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں، وہ رشتوں اور عمروں کا لحاظ کیے بغیر بڑے آرام سے ایک دوسرے کو فاروڈ کر دی جاتی ہیں۔ اگر ایک گھر میں چھوٹے بڑے پانچ افراد ہیں تو سبھی کے پاس موبائل فون لازمی ہو گا۔لازمی بات ہے ہر بندہ کم از کم پچاس روے کا بیلنس توڈیلی خرچ کرتا ہو گا۔ اگر جمع کیا جائے تو 250 روپے میں پورے گھر کے افراد تین ٹائم بڑے آرام سے اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ مگر نہیں گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہو نہ ہو پاکٹ میں موبائل ہونا ضروری ہے۔

ایک وقت تھا بیوی اپنے میاں سے پُھول گجررے، یا چوڑیوں کی فرمائش کرتی تھی مگر اب اس کی فرمائشوں نے بھی ترقی کر لی ہے۔ کچھ لے کر آئو نہ آئو میرے نمبر پر لوڈ ضرور کرواتے آنا۔ بڑھتی ہوئی واردت موبائل فون کی مرہون منت ہی تو ہیں۔ کسی کی لڑائی کروانی ہو تو موبائل کا استعمال۔ کسی کی چوری کروانی ہو تو موبائل کا استعمال۔ جہاں موبائل کی وجہ سے بہت سی بُرائیوں نے جنم لیا ہے وہاں جھوٹ بولنا عام ہو گیا ہے۔ (کون سا اگلا بندہ دیکھا رہا ہے) لڑکے لڑکیاں بن کر دوسروں کو بے وقوف بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔اور بعض دفعہ خود دھوکے میں آ جاتے ہیں۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ چار یا پانچ روپے میں ساری ساری رات مفت کالز کے پیکجز، عاشقوں کے لیے عید ہی تو ہے۔ سردیوں کی لمبی راتیں ہوں، رضائی ہو اور موبائل پر لمبی بات ہو۔ نہ دیکھی ذات پات ،بس لگے ہیں ٹائم ضائع کرنے۔ جسے لڑکی سمجھ کر بات کرتے رہتے ہیں کچھ عرصہ بعد لڑکا بن کر ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان نسل موبائل کے چکر میں اجنبی لوگوں کے ہتھے چڑھ کر خود کو برباد کرتے جارہے ہیں۔ اپنے ماں۔ باپ کی عزت تاڑ تاڑ کرتے چلے جاتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

یہیں سے اندازہ کر لیجئے پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ میسج سینڈ والا پہلا ملک بن گیا ہے۔چلو شکر خدا کا کہیں تو پاکستان کو پہلا نمبر تو ملا۔ انڈیا میں لیٹرنیں کم اور موبائل زیادہ ہیں۔ ہے ناں مزے کی بات۔۔۔ آج کل موبائل میں کمپیوٹر، ٹی وی، انٹرنیٹ، ریڈیو، گھڑی، الارم، مووی کیمرا اور نجانے کیا کیا اس میں موجود ہیں۔ یوں سمجھے چلتی پھرتی بُرائی ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔ نوجوان نسل تباہی کے دھانے پر آ گئی ہے۔ راہ چلتے ہوں یا بائیک پر سوار ہوں یا کسی بس میں سفر کر رہے ہوں (ٹوٹیاں) ہنیڈ فر ی کانوں میں لگے ہیں۔ اب ان پاگلوں کو کیا خبر کہ ہر وقت موبائل کان سے لگا کر رکھنا کان کے کینسر کا موجب بن سکتا ہے۔ موبائل فون کی ریز سے کینسر کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اسی لیے تو سائنسدانوں نے کہا کہ موبائل فون کو سامنے والی جیب میں ہرگز نہ رکھیں اور نہ ہی چارجز لگے موبائل کو استعمال کریں۔

ایک خبر کے مطابق اس وقت پاکستان میں 12 کروڑ کے لگ بھگ موبائل فون استعمال ہو رہے ہیں۔اگر ایک بندہ دس منٹ روزانہ بات کرنے کی ایوریج بھی لگائے تو ایک ارب بیس کروڑ منٹ روز ہوا میں اڑا کر تقریبا ایک ارب روپے روز اس فضول خر چی میں ضائع کیے جا رہے ہیں۔ اگر یہی رقم کسی فلاحی ادارے کو دی جائے تو کتنے بے سہارا لوگوں کی زندگی سنوار جائے۔ کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہو جائے۔ کسی بھوکے کا پیٹ بھر جائے۔ مگر افسوس صدا افسوس ایسا کرتے ہوئے ہمیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ پھر غربت کا الارم بھی ہم بجاتے ہیں، ہائے غربت، ہائے غربت۔ نوجوان نسل موبائل فون میں لگ کر اپنا مستقبل اپنے ہی ہاتھوں بربا د کر رہی ہے۔ جتنا وقت موبائل پر لمبی، فضول گفتگو کرکے ضائع کرتے ہیں۔

اگر یہی وقت تعلیمی سرگرمیوں میں لگا دیں تو کامیابی ان کے قدم بوسی کرے۔آج سے کچھ عرصہ پہلے بھی تو دُنیا کے لوگ بغیر موبائل فون کے گزارہ کر رہے تھے، تو کیوں نہ ہم اس فضول خرچ آلے سے جان چھڑالیں۔ میری والدین سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو بھلائی اور بُرائی میں تمیز کرنا سکھائیں۔ کس چیز کو قبول کرنا ہے۔؟ کسے رد کر دینا ہے۔ کس سے کیسی بات کرنی ہے۔ کس وقت کیا کام کرنا ہے۔؟ بچوں کے پاس مثبت سرگرمی ہو تو فضولیات کے لئے کم وقت بچے گا۔ آج کل کے بچے، بچیوں سے دُوران تعلیم کوئی کام نہیں لیا جاتا، حالانکہ بچے بہت سا وقت موبائل اور ٹی وی کے آگے ضائع کر رہے ہیں۔ خدراہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر تھوڑی بہت کام کی ذمہ داری ضرور ڈالیں تا کہ ان کا مستقبل روشن ہو۔ تمام موبائل فون کمپنیوں سے درخواست ہے کہ خدارہ میڈ نائٹ، ساری ساری رات کے فری کالز پیکجز ختم کریں تا کہ میرے پیارے وطن پاکستان کی نوجوان نسل اپنا وقت اور مستقبل فضول کاموں میں برباد نہ سکیں۔ موجودہ حکومت پاکستان سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ایسی موبائل کمپنیوں پر پابندی عائد کرے جو ساری ساری رات کے فری پیکجز فراہم کرتیں ہیں۔ جس سے میرے وطن کی نوجوان نسل تباہی کی طرف رغب ہو رہی ہے۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر : مجید احمد جائی ملتانی
majeed.ahmed2011@gmail.com