موبائل فون ضرورت یا تعیش

Mobile Phones

Mobile Phones

تحریر : سکندر ریاض چوہان

کم وبیش پچاس سال سے زائد ہو چلے ہیں کہ پاکستانی محنت کشوںنے حکومت پاکستان کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد مختلف ممالک میں اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے روزگار کی تلاش کی اوراس سے ناصرف اپنی بلکہ خاندان کے معیار زندگی کو بہترکیا جس کے بے شمار فوائد ناصرف معاشرے کو ملے بلکہ زر مبادلہ کی صورت میں ملک کے معاشی و اقتصادی حالات میں بہتری آئی اور سمندر پار پاکستانیوں کی انتھک محنت نے دنیا کے بے شمار ممالک بالخصوص عرب ممالک کی ترقی میں اہم کردار اداکیا اور ان کی محنت کشی اور جانفشانی کو دیکھ کر پاکستانی تارکین وطن کو مراعات دی گئی۔

سمندر پار پاکستانی جب سال دوسال بعد اپنے وطن آتے تو یہ تحائف یا ضرورت کی وجہ سے بیرون ملک سے معیاری اشیاء لے کر پاکستان آتے جن میں ریڈیو،ٹیلی ویژن،چٹائیاں،پرفیومز،کپڑے وغیرہ شامل ہوتے جس سے ناصرف ملکی صعنت میں مقابلے کی تحریک ملتی اور اسی نوع کی معیاری اشیائے ضرورت بنائی جاتیں جو کہ معیار میں کم لیکن معاشرے میں فروغ پاتی اسی طرح ٹیلی فون کا بھی ایک اہم کردار رہاہے محلے میںایک ہی لینڈ لائن فون ہوتا جس پر پہلے پیغام دے کر وقت مقررہ پر سمندر پار پاکستانی اپنے دل کی بات کرتے تھے، خطوط آنے جانے والے کے ہاتھوں روانہ ہوتے،کیسٹیں(آڈیو ٹیپس) بھر بھر کر اپنے پیاروں کو حالات سے آگاہ کیاجاتاوقت بدلتا گیا ضروریات اور وقت جدت اختیار کرتاگیا کہ موبائل فون کا زمانہ گیا اور انٹرنیٹ نے دنیاکے حالات کو دیکھتے ہی دیکھتے ایک بالکل نئے زمانے میں تبدیل کردیا اور ایک چھوٹے سے آلے نے دنیا کو اپنے اندرسمیٹ کربے شمار کاموں پرصرف ہونے والے وقت اور سرمائے کو بچالیا اور موبائل فون کی صورت میں ایک ناگزیر ضرورت انسان کی زندگی کا لازمی جزو بن گیا کونسا وہ کام ہے جو موبائل یا اسی نوعیت کے دیگر آلات سے سرانجام نہیں دیے جارہے جس نے زمان ومکان کی قید سے بھی آزاد کر دیا۔

آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میںایک ایسی خبر نے ناصرف مجھ کو بلکہ ہر اس پاکستانی کو جو سمندر پار مقیم ہے کو ایک جھٹکا دیاہے جس میں حکومت پاکستان نے موبائل فون پر اس کی خود ساختہ قیمت کا تقریباًنصف ٹیکس لگا کر تارکین وطن پاکستانیوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبی ہونے کا شدید احساس دلادیاہے کہ جس کا ازالہ پتہ نہیں کب ہوگا اور رشوت بازاری کی ایک نئی راہ کھول دی ہی جس سے ملک کو فائدہ ہو نہ ہو لیکن۔۔۔۔۔۔۔امریکہ جو پاکستان کو امداد یا بھیک ہر سال دیتا ہے اور اس کے بدلے ڈومور کی گردان ہوتی ہے مقابلے میںپاکستانی تارکین وطن جو ہر سال زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں وہ اس سے تین گنا زیادہ ہوتاہے اور کوئی مطالبہ بھی نہیں ہوتا الٹا جب بھی پاکستان میں کوئی آفت آئی تو سمندر پار پاکستانیوں نے ہر اس مشکل گھڑی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیابلکہ ایک حکومتی وزیر موصوف تاحال بیرون ملک چندہ اکٹھاکررہے ہیں اور چیف جسٹس صاحب کی برطانیہ ڈیم فنڈ کی باز گشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے اس بدلے میں تارکین وطن کو کیا ملا پاکستان میں ان کے گھروں پر قبضے، جائیدادوں کے فراڈ، کاروباری بے ایمانیاں، حکومت کی جانب سے سمندرپار پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کروانے کے بعد ان کے سرمائے کو باپ کا مال جان کر پاکستان میں زمین تنگ کرنا، ہوائی اڈوں پر زلت آمیز سلوک،بیرون ملک واپس جاتے ہوئے مٹھی گرم کرکے جانا،پاکستان پہنچنے کے بعد ہوائی اڈوں پر سامان کو ایسے چیک کرنا جیسے کوئی بڑا خزانہ لارہے ہو اور مسافر کے سامان کو گم کرنے اور چوری تو عام ہے اب رہ گیا تھا ایک موبائل اس پر بھی ٹیکس ،بجائے حکومت ان مافیا اور ائیر لائنز کے اہلکاروں کو پکڑے جو سمگلنگ جیسے گھناؤنے کاروبار سے ملک کو بدنام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

تارکین وطن کو ہی رگڑا دیے جارہے ہیں جو ہر ملک کی معیثت میں ریڑھ حیثت رکھتے ہیں،حکومت کو چاہیے تھا سمندرپار محنت کشوں کو مراعات دیتی ان کو ہوئی اڈے پر موبائل کو پاکستان میں رجسٹرڈ کرانے کے طریقہ کار سے آگاہ کرنے محفوظ سرمایہ کاری کے حوالے سے بنیادی معلومات بہم پہنچانے ،بیرون ملک پاکستانی محنت کشوںکو بھیجنے کیلیے ہنر مندی کے سکلڈ پروگرامز اور ان کو مختلف شعبہ جات کے لیے تیار کرنے کی بجائے ان کے کپڑے اتارنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں حیرت تو اس بات پر ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے بنائے گئے لاڈلے مشیرکہاں ہیں کہ انھوں نے بھی اس لعنتی ٹیکس پر حکومت کو تحفظات سے آگاہ نہیں کیا اور ایک موبائل پر کتنی دفعہ ٹیکس دینا ہوگاجبکہ وہ خود برطانیہ میں شاہانہ زندگی کے مزے لے رہاہے اور وہ کیا نہیں جانتے کہ موبائل اب عیاشی سے زیادہ ضرورت اختیار کر چکا ہے۔

حکومت اپنے ان افراد پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتی جو پاکستان میں موبائل سمگلنگ کے گاڈ فادر ہیں یاپھر حکومت صدر مملکت کے فون لگوانے کی پچاس ہزار رشوت دینے کا بدلہ لے رہی ہے ۔ظلم تو یہ ہے کہ اس آفت ناگہانی کا کسی بھی اشتہاری مہم یا سفارت خانوں کے ذریعہ سے آگاہی مہم کی بجائے اچانک تھوپ دیاگیاہے جس کی بنیادی معلومات میڈیاتک کو نہیں دی گئی جب یہ حالات ہوں تو ملک میں کیا سرمایہ کاری ہوگی اور کون یہاں سرمایہ لگائے گا جس کو اپنے سرمائے کے تحفظ کا ہی احساس نہ ہو۔بیرون ملک مقیم پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی بجائے خاتون اول بشریٰ بی بی سے فریاد کرتے ہیں کہ آپ ایک مرتبہ پھر خان صاحب کو یاد دلائیں کہ وہ اب وزیر اعظم ہیں اور تارکین وطن ملک کی اہم ضرورت ہیں اور ان پر یہ ناجائز ٹیکس واپس لے کر ان کو سہولیات دیں کیونکہ آ پ نے کل کو پھر ان سے ہی خیرات مانگنے جاناہے یہ نہ ہو کہ تارکین وطن ملک کی محبت کی بجائے کسی اور رنگ کا مظاہرہ کریں اور جائز طریقہ کے بجائے دیگرذرائع اور متبادل راستے تلاش کر لیں جس سے ناصرف زرمبادلہ میں کمی آئے گی بلکہ بے شمار غیر قانونی رستے کھل جائیں گے۔

Sikander Riaz Chohan

Sikander Riaz Chohan

تحریر : سکندر ریاض چوہان