اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو راستے دیکھا دیئے ہیں۔ ایک وہ راستہ جو نیکی کی طرف جاتا ہے جس پر چل کر دنیا اور آخرت کی بھلائی پا سکتے ہیں۔ ایک وہ راستہ جس پر چلنے والے جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسموں کو جھلسا دینی والے آگ میں جلتے ہیں۔جو شیطانیت کا راستہ ہے۔اللہ تعالی نے دونوں راستے بتا کر انسان کو باآور کرا دیا کہ اب آپ کی مرضی ہے کہ جس راستے کو چاہو اختیار کرو۔
انسان کو دیکھو بھلائی والے راستے پر چلنے سے کتراتا ہے اور جو راستہ بُرائی کی طرف لے جاتا ہے اس کو اختیا ر کرنے میں دیر نہیں کرتا۔انسانی فطر ت ہے جس کام سے اسے منع کیا جائے،وہی کرتا ہے۔نجانے اپنے آپ کو ذلیل وخوار کرکے اسے کیا حاصل ہوتا ہے۔؟لمحہ بھر کی تسکین اور عمر بھر کا عذاب پا لنے میںلمحہ بھر نہیں سوچتا۔
اب موبائل کو ہی دیکھ لیں،جس نے فاصلے کم کردیئے ہیں۔پہلے زمانے میں لوگ میلوں مسافت کرکے اپنے پیاروں کو اطلاع دیتے تھے مگر اب صرف اور صرف ایک بٹن کی دوری پر ہیں ۔ادھر ایک بٹن دبایا ادھر اطلاع پیاروں کو مل گئی۔پیغام رسانی کو آسان تر بنا دیا۔یوں کہنا بُرا نہ ہو گا کہ موبائل نے دنیا کو مٹھی میں سما دیا ہے۔
موبائل نے جہاں ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں پر معاشرے میں بُرائی کو بھی فروغ دیا ہے۔بُرائی کوپھیلانے میں واسطہ یا بالواسطہ موبائل کا ہا تھ ہے۔اب جدھر نظر اٹھے ادھر ہی بُرائی نظر آتی ہے۔کالج ہویا یونیورسٹی کے باہر ہزاروں عاشق ہاتھوں میں موبائل تھامے نظرآتے ہیں۔کوئی تصویریں بنا رہا ہے۔کوئی ویڈیو بنا رہا ہے۔پڑھائی کم اور عایاشی زیادہ ہو رہی ہے۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں جب سے پاکستان میںموبائل نے قدم رکھے ہیں سرکاری اسکولوں کا زرلٹ زیرو ہو گیا ہے۔
یوں ناخواندگی بڑھنے لگی ہے اور دشمن کامیاب ہو رہا ہے۔ سردیوں کا موسم تو نئی نسل کے لئے عید سے بھی بڑھ کر ہے۔شا م ڈھلی تو رضائی میں گھسے گھنٹوں باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔میسج ہوں یا کال ساری رات سلسلہ جاری رہتا ہے اور صبح کو سر درد کا بہانہ لگا کر کالج ،یونیورسٹی سے چھٹی کرلی جاتی ہے۔موبائل کمپنیوں نے بھی فری کالز پیکیج اور ایس ،ایم ،ایس کی بھر ماری کرکے عیدی دے ڈالی۔یوں نئی نسل ترقی کرنے کی بجائے اپنے آپ کوتباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ماں،باپ کی قدر جاتی رہی۔لڑکیوں کے سروں سے ڈوپٹہ یوں غائب ہوا جسے کبھی تھا ہی نہیں البتہ سرکتے سرکتے گلے کی زنیت ضرور بن گیاہے۔ایک زمانے میں ڈوپٹہ عور ت کی شان ہوتا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے جسے پھانسی کا پھندا ہو۔
ہوسکتا ہے انگریز نے موبائل کو ترقی کی ایجاد سمجھا ہو مگر مسلمانوں کو تباہی کی طرف لے جانے والا موبائل ہی ہے۔سمگلر شدہ ،خاموش فلمیںچند روپوں میں جگہ جگہ دستیاب ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک موبائل کمپنی نے میموری کارڈ میں پہلے سے فحاشی ،برہنہ ویڈیوشامل کر دی ہیں جو موبائل اون کرتے ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ موبائل شاپ پر کسٹمرز کو بیس روپے میں تین ،چار گھنٹوں پرمشتمل ویڈیوز مہیا کی جاتی ہیں۔جس سے نئی نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے۔فحاشی پھیلانے میں موبائل شاپ والوں کا دوہرا کردار ہے۔نجانے اب تک ان پرپابندی کیوںنہیں لگائی گئی ۔؟سرکار کی طرف سے کوئی ردعمل نظر نہیں آتا۔نجانے قانون بنانے والے کہاں سو رہے ہیں۔؟بے گناہ کو تو سلاخوں کے اندر دھکیل دیا جاتا ہے مگر مجرم دنڈاتے پھرتے ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق غیرت کے نام پر قتل بڑھ رہے ہیں اور گھروں سے لڑکیاں فرار ہو رہی ہیں۔عدالتوں میں نکاح کی شرح بڑھ گئی ہے۔عدالتیں بغیر تصدیق کیے گھر سے فرار لڑکی اور لڑکے کا نکاح کرادیتی ہیں اور یوں ان کو راہ فرار مل جاتی ہے۔جدھر دیکھو (love)میرج کا ڈھنڈوڑا پیٹا اجا رہا ہے۔یہ شادیاں کامیاب کم اور ناکام زیادہ ہوتی ہیں اسی طرح پاکستان میں طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ معاشرے میں قتل غارت،خون ریزی،فساد،لڑائی جھگڑے عام ہو گئے ہیں۔موبائل فون سے دہشت گردی کو بھی فروغ مل رہا ہے۔دشمن عناصر لاکھوں میل دور بیٹھ کر اپنے ہتھکڈے باآسانی استعمال کر سکتے ہیں۔
Mobile Phone
موبائل فون میں مکمل سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں جیسا کہ کمپیوٹر اس کے اندر سما دیا گیا ہے۔ریڈیو تک بات ٹھیک تھی مگر جو ویڈیوز کا کھیل کھیلا جا رہا ہے،نئی نسل کو تباہی کی طرف لا جا رہا ہے۔نوجوان موسیقی کی چاہا میں ہینڈ فری(ٹوٹیاں) کانوں میں لگائے بے خبر چلتے ہیں جس سے حادثے ہو جاتے ہیں ۔ایک کی غلطی سے ہزاروں جان سے جاتے ہیں۔ہر خاص و عام میں موبائل کی دستیابی نقصان کن ہے۔حیرت کی بات ہے کہ چار،پانچ سوروپے میں آٹے کا تھیلا نہیں ملتا مگر موبائل مل جاتا ہے۔
حکومتی عہدداروں کو اس طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہیے او ر بہتر حکمت عملی کا مظاہر ہ کرنا چاہئے۔جہاں حکومت کا فرض بنتا ہے وہاں والدین کو بھی چاہے کہ اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں اوراس موذی مرض سے محفوظ رکھیں۔والدین کی عدم توجہ بھی بچوں کو بُرائی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
کیوں نہ بچوں پر کڑی نظر رکھ کر پھیلتی برائی کا سدباب کیاجائے۔ میں استدعا کرتا ہوں کہ ایسے عناصر پر پابندی عائدکی جائے اور مرتکب لوگوں کو کڑی سے کڑی سز ا دی جائے تاکہ معاشرے میں پھیلتی برائی کو کنٹرول کیا جائے اورامن قائم ہو۔اس کے لئے عوام کو ،علماء کرام اور حکومت کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
تبھی ہم مسلم کہلوانے کے حقدار ہیں ورنہ مغرب والے ہمیں ناکام کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا ہی رہے ہیں۔وہ چاہتے ہی یہی ہیں کہ ان کو ورغلا کر ان پر حکومت کی جائے۔اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم ان کو پہلو میں بیٹھتے ہیں یاان کے ہتھکنڈے ناکام بناتے ہیں۔
Majeed Ahmed
تحریر : مجید احمد جائی(ملتان) majeed.ahmed2011@gmail.com