تحریر : اقبال زرقاش بدعنوانی، لوٹ مار، دھوکہ دہی ہمارے معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح َسرایت کر چکی ہے۔ بدقسمتی سے زندگی کا کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں رہا آئے روز سیاستدانوں کی کھربوں روپے کی لوٹ مار کے میگا سکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں ہمارے ملک کا کوئی ادارہ کرپشن سے محفوظ نہیں حتیٰ کہ ہمارے علماء کرام بھی بد عنوانی کے بدنما داغ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ہمارے ملک کا دین دار طبقہ ایسا تھا جس پر کل تک ہم فخر کرتے تھے مگر آج” ہوس زر” نے ہمارے علماء کرام کے کردار کو بھی داغدار کرکے رکھ دیا ہے۔حق حلال کی کمائی پر یہ شاکر طبقہ ہمارے لیے مشعل راہ تھا غربت و افلاس کے باوجود ہمارے علماء کرام اللہ پاک کی رضا پر صبر وشکر کے ساتھ زندگی گزارتے تھے اور معاشرے میں ان کا وقار اور عزت قابل دید تھی۔ ہمیں اپنے علماء کرام پر اندھا اعتماد تھا کیونکہ ان کے قول و فعل سنت رسول کے تابع نظر آتا تھا۔دین اسلام کے یہ وارث آج کس راہ پر چل نکلے ہیں ” حج سکینڈل” ہو یا “مضاربہ سکینڈل “اس میں علماء کرام و مفتیان ِدین کا جو کردار سامنے آیا ہے اس سے ہمارے یہ مذہبی پیشوا بے توقیر ہو کر رہ گئے ہیں۔
سائیکل کی سواری سے لینڈ کروزر کی سواری تک کا یہ سفر انہیں کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کچے گھروں میں رہنے والے یہ فقیر طبع لوگ آج بڑے بڑے بنگلوں اور محلوں تک تو پہنچ گئے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں جن القاب سے انہیں نوازا جا رہا ہے اس سے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ دین اسلام کے یہ داعی یہ واعظ یہ ممبر رسول کے وارث یہ مفتی جو کل تک دین حق کی تبلغ کرتے تھے جو ہمیں صبر وشکر اور قناعت کا درس دیتے تھے جو ہمیں حضور پاکۖکا یہ فرمان سناتے تھے کہ” میری اُمت کا فتنہ مال و زر ہے” ان لوگوں کو آج کیا ہو گیا ہے ؟ معروف شاعر بابائے تھل فاروق روکھڑی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے خود نہیں ڈرتا لوگوں کو محشر سے ڈراتا رہتا ہے یوں ہی وقت گنوایا ہم نے،واعظ سے بیکار ملے ہیں
آج میرے شہر اٹک میں میرے اردگرد سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو مفتیان دین کے ڈسے ہوئے ہیں جو اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی علمائے کرام اور مفتی صاحبان کے خود ساختہ کاروبار “مضاربہ” مشارکہ کی نظر کر چکے ہیں۔آئے روز ان متاثرین کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ اپ میڈیا سے وابستہ لوگ ہیں ،تین سال کا عرصہ گذر چکا ہے مگر ابھی تک ہمیں کہیں سے انصاف نہیں مل رہا۔ اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلوں کے ذریعے ہم چیخ و پکار کرکے خاموش ہو چکے ہیں دادرسی کے تمام دروازے کھٹکٹا چکے ہیں مگر انصاف کا حصول کہیں دکھائی نہیں دے رہا ۔ نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کے پاس مضاربہ سکینڈل کے متاثرین کی درخواستوں کے انبار پڑے ہیں مگر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو رہی۔ مضاربہ سکینڈل میں سب سے زیادہ متاثر ضلع اٹک ہے جہاں سے اربوں روپے مفتی صاحبان و علماء کرام نے مضاربہ مشارکہ کے کاروبار کیلئے ہتھیائے ہیں۔ سود سے پاک شرعی کاروبار کا جھانسہ دے کر” الیگزر گروپ “کے نام سے کمپنی متعارف کرانے والے علماء کرام و مفتی صاحبان اربوں روپے لے کر روپوش ہو چکے ہیں چند ایک پکڑے بھی گئے ہیں تاہم ابھی تک ان کا کیس سست روی کا شکار ہے۔
Modaraba Scandal
مضاربہ سکینڈل میں سب سے زیادہ کلیدی کردار ادا کرنے والے مفتیان دین کے مقامی ایجنٹ (فرنٹ مین) جہنوں نے براہ راست لوگوں سے رقوم اکھٹی کیں وہ ابھی تک قانونی گرفت سے محفوظ ہیں سب سے زیادہ قصور وار اور قابل گرفت وہی علماء کرام ہیں جو مختلف مساجد اور دفاتر میں بیٹھ کر لوگوں کو مضاربہ مشارکہ شرعی کاروبار کا درس دے کر ان سے رقوم اکھٹی کرتے رہے اور اس رقم سے اپنا بھاری کمیشن وصول کرکے آج کروڑ پتی بن چکے ہیں بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق کچھ ایجنٹ (فرنٹ مین) الیگزر کمپنی کے سرکردہ افراد کو رقم بھیجنے کے بجائے خود ہڑپ کرتے رہے اور اسی رقم سے ماہانہ منافع کے نام پر کچھ پیسے دیتے رہے تاہم اس بات کی تحقیق تب ہی سامنے آ سکتی ہے جب ان مقامی ایجنٹوں کو گرفتار کر کے تفتیش کی جائے گی۔ دُوسری بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ الیگزر گروپ کے نام سے قائم کمپنی سابقہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جب پنجاب میں (ن) کی حکومت تھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے کیسے اوجھل رہی۔ بڑے پیمانے پر ضلع بھر میں بڑے بڑے سائن بورڈ آویزاں کرکے بعض اخبارات میں اشتہارات دے کر اس کاروبار کی تشہیر کی جاتی رہی مگر کسی حکومتی ادارے نے کیوں توجہ نہ دی جو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ایک سوالیہ نشان ہے؟
الیگزر گروپ کے سب ایجنٹ(فرنٹ مین) ابھی تک قانونی گرفت میں کیوں نہیں آئے؟الیگزر گروپ کے ڈائریکٹر مفتی بشیر احمد ساکن حمید گاوں ضلع اٹک کو کس نے ملک سے فرار کروایا؟ مفتی عبدالخالق ساکن ماڑی جلوال اٹک ،مفتی عبدالرافعٰ ساکن دامان اٹک سرگردہ افراد میں شامل تھے مفتی ابراہیم گرفتار ہیں اور انہوں نے جو انکشافات کیے وہ میڈیا سے کیوں چھپائے جا رہے ہیں ؟ نیب کے ذرائع کے مطابق اٹک سے عالم دین قاری احمد نواز، قاری عبدالروف، حاجی فیض احمد، قاری شمس الحق، مفتی احتشام الحق، مولانا محبوب الرحمن ، قاری انیس الرحمٰن، مولوی فقیر حسین، مولوی ولی جان، قاری شعیب، حاجی داود، حاجی سلیمان، حافظ لیاقت، قاری محمد عارف، قاری عرفان، قاری تنویر احمد، مولانا عبدالرحمٰن، قاری امجد علی ، مفتی اسحاق، مفتی حبیب الرحمٰن، مولانا ارشاد، مفتی ندیم اقبال ، قاری شرافت علی، قاری سید الرحمن، حافظ منظور الحق، قاری شکیل، قاری میر عالم اور ڈاکٹر احسان الحق وغیرہ وغیرہ الیگزر گروپ کے اٹک میں ایجنٹ تھے جو براہ راست لوگوں سے پیسے لے کر رسیدیں دیتے رہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ کس قانون کے تحت لوگوں سے رقوم لیتے رہے اور اپنے ہیڈ مفتی صاحبان تک پہنچاتے رہے۔ قانون نافظ کرنے والے اداروں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو ان افراد کی پشت پناہی کر کے ابھی تک ان لوگوں کوشامل تفتیش نہیں کروا رہے۔
متاثرین مضاربہ سکینڈل میں سب سے زیادہ تعدادایسے افراد کی ہے جن کے پاس وسائل نہیں کہ وہ قانونی جنگ لڑ سکیں اس میں کئی بیوہ، خواتین اور یتیم بچے بھی شامل ہیں جن کا کل اثاثہ لاکھ دو لاکھ روپے تھے جو علماء کرام نے ہتھیا لیے۔ مضاربہ سکینڈل نے جس طرح ہمارے علماء کرام و مفتیاں دین کا چہرہ بے نقاب کیا ہے اس سے اب کوئی شخص ان علماء کرام پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں جن کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل علماء کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کراچی میں کرپشن کے خلاف جاری آپریشن کی طرح نیب ،مضاربہ سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف بھی فوری کاروائی کرے تاکہ یہ تاثر زائل ہو سکے کہ کرپشن کے خلاف آپریشن صرف سندھ تک محدود نہیں ہے اس کا دائرہ کار پنجاب میں بھی نظر آنا چاہیے ورنہ نیب اور موجودہ حکومت پر تنقید اور سیاسی انتقام کی بازگشت کو فوقیت ملتی رہے گی۔ مضاربہ سکینڈل پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا سکینڈل ہے علماء کرام سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوئے بدکردار لوگوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کا محاسبہ کرنے میں متاثرین مضاربہ کے ساتھ کھڑے ہوںورنہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس ہم نے کئی بار مہ خانہ میں خد ا دیکھا ہے