مصطفی آباد/للیانی : ماڈل ٹائون میں ہونے والی بربریت کی بھر پور مذمت کرتے ہیں، سرکاری سر پرستی میں کی گئی دہشت گردی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، واقع میں ملوث افراد کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں انہیں اقدام قتل کے الزام میں گرفتار کیا جائے،شہباز شریف اور متعلقہ وزراخود کو قانون کے حوالے کریں،اگر متعلقہ افراد مستعفی نہیں ہوتے تو صدر انہیں برطرف کر دیں، طاہر القادری کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی کی بھر پور حمایت کا اعلان کرتے ہیں،
ان خیالات کا اظہار پیر سید طاہر سجاد کاظمی زنجانی آستانہ عالیہ نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف واقع کے اصل ذمہ دارہیں،۔واقع میں ملوث تمام مشینری کو معطل کیا جانا چاہئے، اچھی شہرت کے حامل ایماندار افسران کو انکوائری آفیسر تعینات کیا جائے، سانحہ ماڈل ٹاون کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ پر امن اور نہتے شہریوں پرظلم ،انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ کے 3 سینئرجج صاحبان پر مشتمل ایسا کمیشن بنایا جائے جو وزیر اعظم سمیت ہر ایک کو طلب کرسکے، سانحہ ماڈل ٹاون میں متاثرہ افراد کے خلاف درج ایف آئی آر ختم کی جائے اور ایف آئی آر منہاج القرآن کی طرف سے درج کی جائے۔ ہمارا سیاسی کلچرغنڈہ گردی کا کلچربن گیا ہے اگر ہم پاکستان میں صحیح معنی میں جمہوریت لانا چاہتے ہیں تو اس سانحے کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیئے۔ سانحہ لاہور کی آزادانہ تحقیقات نہ ہوئی اور اس کے ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ قوم کے سامنے یہ حقیقت کھلنی چاہیئے کہ نہتے لوگوں پر کس کے حکم پر گولی چلائی گئی۔اس بات کا بھی پتہ لگایا جائے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی جاری ہے اس وقت اس طرح کے واقعات کرکے قوم کی توجہ دوسری جانب کیوں مبذول کرائی گئی۔ سا نحہ ماڈل ٹائون لاہور کی تاریخ کا یہ ایک ہندو ناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے کارکنوں کا اتنا بڑا جانی نقصان پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ طاہر القادری کے گھر پر بحریئر ہٹانے کے نام پر جو چڑھائی اور قتل و غارت گیری کی گئی دوخواتین سمیت کئی افراد کو ان کی زندگیوں سے محروم کردیاگیا ۔ کیا اسے حکمرانی کے آداب میں شمار کیا جاسکتا ہے اتنے مظالم تو بھارتی فوج نے کشمیریوں کے ساتھ بھی نہیں کئے۔ جس کا مظاہر پنجاب پولیس نے کیا۔