تحریر : شاہد جنجوعہ قارئین ! سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ یکطرفہ ہے ، اس میں مظلوم کی دادرسی کرنیکی بجائے ظالم کو کووراپ دیا گیا ہے،دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبول عام ٹاک شو “سوال یہ ہے “کے میزبان ڈاکٹر دانش نے گذشتہ روز آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ماڈل ٹائون واقعے کی انکوائری کے حوالے سے قوم کی نظریں اس رپورٹ پر اس لیے تھیں کیونکہ اس میں فوجی ادارے کا نمائندہ شامل ہے اور عوام امید کرتے تھے کہ آرمی نمائندے کی موجودگی کی وجہ سے انکوائری مکمل صاف و شفاف ہوگی اورکمیٹی ذمہ داران کا تعین کرکے قاتلوں کیلئے قرار واقعی سزا تجویز کرے گی، مگر افسوس ایسا سانحہ جس میں ریاستی پولیس نے اپنے ہی نہتے عوام پر بیہمانہ تشدد کیا جس کے نتیجے میں کئی بے گناہ افراد سیدھی گولیاں لگنے سے موقع پر ہی دم توڑ گئے، بیسیوں شدید زخمی ہوئے۔ اسکی تحقیق کرنیوالی جے آئی ٹی نے بظاھر سب کو کلین چٹ دے دی ہے۔
ڈاکٹر دانش نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر سے کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی کی نمائندگی کرنیوالے ایک کرنل کے کردار پر انگلی اٹھنے سے پہلے انہیں چاہیئے کہ وہ اپنی چھان بین کرلیں کہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے اور اگر دال میں کچھ کالا نکلا تو قوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔ پروگرام میں معروف تجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے کہا کہ ماڈل ٹائون سانحے میں پولیس نے یکطرفہ گولیاں چلائیں اور لائیو ویڈیو فوٹیجزگواہ ہیں کہ منہاج القرآن کے کسی ایک کارکن یا سکیورٹی پر معمور افراد نے سرکاری اہلکاروں پر جوابی فائرنگ نہیں کی اور وہ خود اسکے چشم دید گواہ ہیں مگر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پولیس نے خواتین کو بھی نہیں بخشا ان سے بھی ہاتھا پائی کی اور انکے سر اور منہ پر سیدھی گولیاں مارکر شہید کر دیا۔
پروگرام سوال یہ ہے میں ڈاکٹر دانش نے عدلیہ کے بعض فیصلوں پر عوام اور خود سیاستدانوں کے اپنے اعتراضات کا حوالہ دیکر کہا کہ اگر حکومت کے ہاتھ ان شہداء کے خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں تو پھر یہ کیس کیوں نہ فوجی عدالت میں بھیج دیا جائے۔ انہوں نے لائیو شو میں ن لیگی نمائندے نہال ہاشمی سے بار بار سوال کیا کہ اگر آپکے لیڈر اس واقعے میں ملوث نہیں ہیں تو آج آپ آن ریکارڈ یہ بات کہہ دیں کہ یہ معاملہ فوجی عدالت ٹیک اپ کرلے مگر نہال ہاشمی مسلسل اس سوال کو گول کرتے رہے اور ان کا اصرار تھا کہ عوامی تحریک نے ڈیل کرکے دھرنا ختم کیا ۔ ڈاکٹر دانش نے نہال ہاشمی سے سوال کیا کہ یہ ڈیل کس سے ہوئی، اسکا نام منظرِ عام پر لائیں، تاہم نہال ہاشمی نے کسی کا بھی نام بتانے سے گریز کیا، یاد رہے کہ دھرنے کے وقت عوامی تحریک کی اعلیٰ قیادت کے ن لیگی رہنمائوں سے مذاکرات کی خبریں میڈیا پر آئیں جسکا عوامی تحریک نے پہلے انکار کیا
Tahir ul Qadri
بعد میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا سے اپنے ایک خطاب میں کارکنوں کو کہا کہ یہ دوچار منٹ کی راہ چلتے ملاقات ہوئی اس چھوٹی سی بات کا آپکو کیا بتایا جاتا ، مگر چند روز قبل رانا ثنااللہ نے وسیم بادامی کے لائیو شو میں پھر دہرایا کہ رحیق عباسی اور عوامی تحریک کے دیگر اعلیٰ عہدیداران کی شریف بردارن سے طویل ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات باقاعدہ طے شدہ تھی اس لائیو شو میں رحیق عباسی نے کسی موقع پر بھی رانا ثنااللہ کی بات کا انکار نہیں جس سے مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ پروگرام میں شریک صاحبزادہ حامد رضا نے الزام لگایا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف ماورائے عدالت قتل کے احکامات دیتے ہیں اور پولیس کو اپنے مخالفین کیخلاف استعمال کرتے ہیں مگر نہال ہاشمی نے اسکا انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض ایک پراپیگنڈہ ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر دانش نے منہاج القرآن اور عوامی تحریک کی سیکنڈ لائن قیادت پر بھی کئی سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ دوسروں کے احتساب کے تو بڑے نعرے لگاتے ہیں جبکہ اس احتساب کی سب سے زیادہ ضرورت خود عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے اندرہے۔ اگر عوامی تحریک کی قیادت فعال ہوتی یا انکا ہوم ورک مضبوط ہوتا تو جے آئی ٹی رپورٹ لکھنے والوں میں کبھی یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ گول مول بات کرتے اورمرنے اور زخمی ہونیوالوں کو انصاف نہ ملتا۔ سوال یہ ہے میں ڈاکٹر دانش نے ایک بڑی فائل کیمرے میں دکھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے پاس بہت کچھ ہے اور اگر وہ فلم چل گئی تو ایسے افراد کیلئے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا
مگر وہ کارکنوں کی قربانیوں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے اچھے کاموں کی قدر کرتے ہوئے آج پھر یہ عزم دہراتے ہیں کہ ڈاکٹر قادری جلد سے جلد پاکستان واپس آئیں اور نظام کی اصلاح کیلئے آہنی جدوجہد کا آغاز کریں، میڈیا پھر انکا ساتھ دیگا مگر اس.سے پہلے انہیں اپنی صفوں میں سالہاسال سے مسلط ایسے موقع پرست نام نہاد لیڈروں کو نکالنا ھوگا جنہوں نے غلط معلومات دیں، جس سے دھرنے کی پلاننگ سمیت بھکر اور کنٹونمنٹ کے انتخابات میں عوامی تحریک کو بری شکست ہوئی اس سے مایوسی پھیلی جسکے نتیجے میں شاید آئندہ پچاس سال تک بھی لوگ انقلاب کی آواز پر کان نہ دھریں۔ ڈاکٹر دانش نے کہا کہ ظلم و ستم کا شکار ہونیوالی قوم کی ان معصوم بیٹیوں کو انصاف ملنا چاہیئے ، چاھے آسمان پھٹے یا زمین گرے، کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔14 افراد کو دن دیہاڑے گولیاں مارنے والوں کی وردیاں اتار کر انہیں قانوں کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ان پر گولی چلانے کا حکم دینے والے درندے کیسے بری الذمہ قرار دے دئیے گئے؟ کیا اس ملک میں غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں؟