تحریر: شاہد جنجوعہ لندن دھرنا رات افطاری سے شروع ہوگا اور سحری پر ختم ہوجائے گا۔ پرویز الہی نے راز کھول دیا۔ دھرنے کا اصل مقصدپی ٹی وی حملہ کیس میں طاہرالقادری کی گرفتاری پر عملدرآمدر کی صورت میں عقیدمندوں کو پولیس سے مقابلے کیلئے استعمال کرنا تھا۔ دھرنا شیخ رشید کی ایما ء پر ہو رہا ہے اگر مقصد ملک کی تعمیر نو نہیں تو عوام کیوں لڑے کیوں قربانی دے؟ شیخ رشید اور طاہرالقادری کا یہ اختلاف ذاتی ہے، ایک وقت میں یہ دونوں نوازشریف کے خوشہ چین تھے ۔ جس انداز کا احتجاج شیخ رشید نے ڈاکٹر قادری سے کروا رہے ہیں اس کا انجام 2014 سے مختلف کیسے ہوگا؟ ہارون الرشید کے بقول لشکروہی حالات وہی ، الزامات وہی، عوام وہی نتییجہ کیسے مختلف ہوگا؟ آئین سٹائین نے کہا تھا ؛ پاگل پن یہی ہے کہ ایک تجربہ باربار دہراتے ہوئے مختلف نتائیج کی امید رکھی جائے۔یہ بات بالیقن ہے کہ ڈاکٹرقادری اس وقت اپنی بقا ء کی جنگ لڑرہے ہیں اس سے پہلے بھی وہ ددسروں کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔
لیکن جب نتیجہ کچھ نہیں نکلتا، مایوس ہوکرملک اور سیاست دونوں کو خیرآباد کہہ کرایک لمبے عرصے کیلئے غائب ہوجاتے ہیں، وقت آگیا ہے انہیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگاوہ اب تک سارے فیصلے اپنی من مرضی سے کرتے آئے ہیں جسکا خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے فیصلے جس میںنظریہ نیلام ہوجائے ، معصوم لوگ انا پرستی اور ضد کی بھینٹ چڑجائیں یاگولیوں سے بھون دئیے جائیںکوئی مفت میں نہیں کرتا۔بڑی بڑی بولیاں لگتی ہیں اور مراعات کے پیکجز طے ہوتے ہیں۔ دوہائیاں ماضی میں چلے جائیں جب 1999 تھا اور اسلام آباد میں حکومت کیخلاف طاہرالقادری اسی طرسرگرم تھے ۔ جسے آج وہ انقلابی دھرناکہتے ہیں اس وقت اسے احتجاج مارچ کہا کرتے تھے اس میں شیخ الاسلام کی ہٹ لسٹ پرنوازشریف کیساتھ شیخ رشید بھی ہوتے تھی اورآج وہی شیخ رشید ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے اس سرعام بے عزتی اور الزام تراشی کا بدلہ لے رہے ہیں جو ڈاکٹرطاہر القادری نے ان کی ذات پرلگائے تھے۔
Model Town Lahore Tragedy
بے شک سانحہ ماڈل ٹاون ایک دیکھ بھری داستان ہیں جس میں بے گناہ مرنے والے غریب تھے اور مارنے والی پولیس جبکہ آگ لگانے والا ڈاکٹر قادری کا چیتا تھا۔ مگر شومئی قسمت کے اس عظیم سانحے کے بہت سارے پہلو آج تک عوام کے سامنے نہیں آسکے ۔ پولیس نے 17 جون کی رات جن تقریبا 40 طلبا ء کو گرفتار کیا تھا ان میں سے کسی ایک پر بھی کوئی تشدد نہیں کیا گیا تھا اور انہیںاگلی صبح تک چھوڑدیاگیا۔ لیکن اس سانحے میں ایک خاص موڑاسوقت آیا جب SHO نے منہاج القرآن کی مرکزی قیادت کو حکومتی آرڈر دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ بیرئیر ہٹائے آئے ہیں اورچونکہ احکامات بہت سخت ہیں اسلئے وہ یہ کام کئے بغیر ہرگزواپس نہیں جائیں گے ۔ پولیس کالہجہ دیکھر شیخ الانقلاب کے چیتے جواد حامد کوطیش آگئی اس نے کہا پہلے وزیراعلیٰ کے گھرماڈل ٹائون کے بیرئیر ہٹائو پھر ہم سے بات کرنا جس پرSHO نے کہا اگر مجھے حکم ملا میں وہ بھی ہٹاکے چھوڑوں گا مگر اسوقت اہل محلہ کی شکایت آپ کیخلاف ہے کہ شام گئے آپ عوامی شاہراہ بند کردیتے ہیں جس سے عام لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ پولیس سے جوادحامد، علامہ طاہرالقادری کے سیکورٹی گارڈ یاسرخان، سربراہ الطاف شاہ بخاری نے کہا وہ ایسا کسی قیمت پر نہیں ہونے دینگے۔
مگراسوقت کسی کاپیغام آیا جس کے بعد جواد حامد کو بہت جوش آگیا اور اس نے SHO کو تھپڑمار دیا جس نے جلتی پرتیل کا کام کیا اور پھر دونوںاطراف سے مار کٹائی شروع ہوگئی ۔بدقسمتی سے ان دنوں وہاںبلڈنگ ورک ہورہا تھا جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے شریعہ کالج کے نادان طلباء نے پولیس پرپتھر اورڈنڈے برسانے شروع کردئیے اور جواب میں پولیس انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس پھینکتی اور جب گھر گئی تو انہوں نے بھی ڈنڈے نکال لئے مگر اسوقت چونکہ طلباء کی تعدا د زیادہ تھی اس لئے پولیس نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ پھر اگلے صبح پولیس دوبارہ آئی اور اس نے بڑے پیمانے پر کاروائی کی اور بے دریغ اسلحے کا استعمال کیا جس کا بحرحال اخلاقی جواز نہیں تھا۔ اسموقع پر منہاج القرآن اورعوامی تحریک کی مرکزی قیادت پولیس کے ارادے بھانپ کر اپنی جوتیاں تک وہیں چھوڑ کر بھاگ گئی ،کچھ لوگ عوامی تحریک کے دفتر ، کچھ حمام اور کچھ اردگرد جہاں جگہ ملی جاکر چھپ گئے اور لڑنے مرنے کیلئے معصوم طلبائ، بزرگ اور بہنوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ۔ اسوقت نوجوانوں کو دھکے دیکر پولیس سے مقابلے کیلئے اکسانے والی جو مسجد کے الائوڈ سپیکر پر اعلانات کررہے تھے ۔
ان میں نمایاں شخصیت منہاج شریعہ کالج کے پرنسپل علامہ صادق قریشی تھے اورنکے دوسرے ساتھی علامہ سید فرحت حسین شاہ تھے جو اسوقت منہاج القرآن کے ناظم دعوت و تربیت تھے دیاد رہے کہ اس واقعے کی لفظ بہ لفظ تصدق سید فرحت حسین شاہ صاحب نے کوخود دورہ برطانیہ کے دوران میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کی۔سوال یہ ہے کہ اسوقت بہنوں کی زندگی اور عزت بچانے کیلئے ان کے شیر بھائی باہر میدان میں نکلنے چاہیں تھے مگر اسلام اور انقلاب کے ان ٹھیکداروں نے دین اسلام سیکھنے آئے ان لوگوں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیا ۔
اس واقعے میں انتظامیہ اور پولیس کسی صورت بری الزمہ قرار نہیں دی جاسکتی اسلئے کہ انہوں نے جوابا ریاستی دہشتگری اور بربریت کی انتہاء کردی ۔آج جب سانحہ ماڈل ٹائون کی انکوائری چل رہی ہے اس واقعے کے دواہم گواہ اورملزم علامہ صادق قریشی اور علامہ فرحت عباس شاہ کوعدالت میںپیش ہی نہیں کیا گیا اور وہ روپوش ہیں۔ ان میں سے ایک لندن میں آج بھی گمنامی کی زندگی کسر کر رہا ہے۔ شہداء کے اہل خانہ نے کہا کہ ہمیں جوش دلاکردیت لینے سے انکارپر اعلیٰ قیادت نے اکسایا اورہماری حالت یہ ہے کہ دیت بھی نہ ملی اور ہم نے چندہزار ماہانہ کی منہاج القرآن کی ماہانہ کفالت سے نہ ہم زندوں میں شمارہوتے ہیںاور نہ مردوں میں۔سوال یہ ہے کہ اگر رمضان المبارک نہ ہوتا تو طاہرالقادری صاحب کیا پھر بھی پاکستان آتے اور پھراس دھرنے سے کیا کھویا کیا پایا یہ بھی آج پتہ چل جائے گا۔ اسوقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب علامہ طاہرالقادری کفن پہنکرکربلا کیلیے نکلیں گے توکیاڈرامائی سین ہوگا؟