محترم وزیرِاعظم نے اپنے متعدد بیانات میں ”ریاستِ مدینہ” کی تشکیل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اِس عزم کا اظہار توضیاء الحق نے بھی کیالیکن شاید یہ نیت کا فتور تھا کہ وہ اپنے اِس عزم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے حالانکہ وہ کُلی اختیارات کے مالک تھے اور اُن کے لیے اپنے ارادے کی تکمیل کوئی مشکل کام نہ تھا۔تحریکِ انصاف کی حکومت کو لگ بھگ دو سال بیت چکے لیکن اِس سلسلے میںعمل مفقود۔اگر نیتوں میں فتور نہیں تو پھر سب سے پہلے ہمیں رَبِ لَم یَزل کو حاکمِ اعلیٰ تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآنِ مجید کی رو سے حاکمِ مطلق سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ۔ یہ صراحت قرآن میں جگہ جگہ نظرآتی ہے۔ سورة یوسف میں ارشاد ہوا ”فرمانروائی کا سارا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں”۔ اِس لیے یہ طے کہ حاکمِ اعلیٰ تو صرف اللہ ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حاکمِ مطلق کے اختیارات محدود بھی ہو سکتے ہیں؟۔ کیا سیاسی حاکمیت انسان کی اور مسجد وممبر کی اللہ کی؟۔۔ سورة بقرہ میںرَب کا فرمان ہے ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ”۔ سورة انفال ٣٩ میں ارشاد ہوا ”دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہے”۔ جب ہمیں پورے کا پورا دین میں داخل ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ کوئی ایسا نظامِ فکروعمل بھی ہوگا جس میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اِسی نظامِ فکروعمل کو نظامِ خلافت کہا جاتا ہے۔
سورة بقرہ ٣٠ میں ارشاد ہوا ”یاد کرو وہ وقت جب تمہارے رَب نے کہا میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”۔ خلیفہ کا ذکر دوسری کئی آیاتِ مبارکہ میں بھی آیا ہے ۔ سورة صّ میں حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ خلیفہ کے معنی جانشین یا کسی کے اختیارات کو بطور نائب استعمال کرنے والا کے ہیںجس کے پاس اپنی مرضی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ وہ مالک کی مرضی کے مطابق اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زمین پر انسان کی حکومت ”نیابتی” ہے۔ جب ربِ کریم نے ایک نظام تشکیل دیا اور سیدھی راہ دکھانا اپنے ذمے لیاتو اُسے بے ترتیب تو نہیں چھوڑا ہوگا۔ یقیناََ اُس نے ایک ایسا آئین دیا جو ہماری سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی زندگی کے ہر گوشے کو منور کر سکے۔ اِس نظام کی اولین اور بہترین شکل ہمیں ”میثاقِ مدینہ” کی صورت میں ملتی ہے۔ یہ پہلا تحریری آئین تھاجس میں ٥٣ دفعات شامل تھیں۔
امریکی آئین سات ہزار الفاظ پر مشتمل ہے جسے دنیا کا مختصر ترین آئین کہا جاتا ہے جبکہ میثاقِ مدینہ صرف سات سو تیس الفاظ پر مشتمل پہلا جامع اور مؤثر آئین تھا۔ اِسی آئین کی وجہ سے یہودیوں کے بنوقینقاع ، بنو نضیراور بنو قریظہ کے دَس قبائل اور اوس اور خزرج کے بارہ قبائل کے باہمی تصادم کا خاتمہ ہوا۔ اِسی آئین کی بدولت حضورِ اکرم ۖ کے دنیا سے تشریف لے جانے تک (محض دَس سالوں میں ) اسلامی حکومت دَس لاکھ مربع میل تک پھیلی جبکہ حضرت عمر کے دَور تک بائیس لاکھ مربع میل اور ایک صدی میں اِس کی حکمرانی کا دائرہ تین برِاعظموں تک وسیع ہوگیا۔ خلافتِ راشدہ کاتیس سالہ دَور اخلاقی خرابیوں، عصبیتوں اور رسوم سے پاک تھا جس میں ظلم وجبر کی بجائے عدل اور سنگدلانہ تعصب کی بجائے رحمدلی اور خُدا ترسی تھی ۔ جس کی معیشت سود سے پاک تھی۔ جس میں مساواتِ انسانی اورعدلِ اجتماعی کی فراوانی تھی جس کے اخلاق وکردار کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ جس کی بنیادی شرط عمالِ سلطنت کا صالح ہونا اور جس کی سیاست کی بنیاد یہ کہ حاکمیت کسی انسان ، ادارے یا خاندان کی نہیں صرف اللہ کی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دَورِ جدید میں خلافتِ راشدہ قائم ہو سکتی؟۔ کیا اِس میں کوئی خامی ہے؟۔ کیا دین نے جو معاشی ومعاشرتی، مذہبی وسیاسی راہیں متعین کی ہیں، وہ درست نہیں؟َ ۔ کیا دین میں اخلاق وکردار، معاش ومعاشرت، تہذیب وتمدن، مذہب وسیاست، عدل وانصاف، اخوت ومحبت کے پیمانے مقرر نہیں؟۔ کیا حضورِاکرمۖ نے میثاقِ مدینہ کی صورت میں پہلا تحریری آئین نہیں دیا؟۔ جب دین کے مقرر کردہ سارے پیمانے درست ہیں تو پھرملک میں خلافتِ راشدہ کا نظام قائم کرنے میںکیا قباحت ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہجومِ مومنین کا نام اسلامی ریاست نہیں۔ اسلامی ریاست تو وہی کہلائے گی جہاں قرآن وسنت کو مرکزیت حاصل ہو۔ اگر پاکستان میں چھیانوے فیصد سے زائد مسلمان بستے ہیں تو پھر بھی اُسے اُس وقت تک اسلامی ریاست نہیں کہا جا سکتا جب تک قراردادِمقاصد پر مکمل عمل درآمد نہ ہواور تمام قوانین اسلامی قالب میں نہ ڈھل جائیں۔ ریاستِ مدینہ کے قیام کے بارے میں عرض ہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ میرے اِس یقین کی بنیاد حضورِ اکرم ۖ کا آخری خطبہ ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا ہے ”لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں جسے اگر مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو قیامت تک گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے کتاب اللہ”۔ اب اگر میں بطور مسلم یہ کہتا ہوں کہ دَورِ جدید میں ریاستِ مدینہ کی تشکیل ناممکن ہے تو دو باتوں سے انکاری ہوتا ہوں۔
پہلی یہ کہ میں اسلامی نظام کو عالمگیرنہیں سمجھتااور دوسری یہ کہ حضورِاکرم ۖ کے آخری خطبے کے اِن الفاظ کا منکر ہوں جو میں اوپر بیان کر چکا۔ اہلِ ایمان میں سے کوئی بھی بالا دو باتوں سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ اگر ہم واقعی ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے لیے مخلص ہیں تو پھر ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دینِ مبیں ہر اُس شخص کو مسترد کرتا ہے جو خلافت کا اُمیدوار ہو جبکہ ہمارے ہاں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں سے کون وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالے گا۔ نیابتی منصب سنبھالنے کے بعد حاکمِ اعلیٰ کے احکامات سے سرِمو روگردانی ناممکن۔خلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے خلافت سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبے میںفرمایا ”لوگو! اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرنا اور اگر غلطی پر دیکھو تو راستہ دکھانا”۔ خلیفہ دوم حضرت عمر نے فرمایا ”لوگو! تم میں سے میرے اندر جو کجی پائے، وہ مجھے ٹھیک کر دے”۔
اگر ہم احکاماتِ رَبی پر مکمل عمل درآمد کے لیے تیار ہوجائیں تو سورة النور ٥٥ میں رَب کا یہ وعدہ یاد دلاتا چلوں کہ ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے بھلے کام کیے اللہ کا اُن سے وعدہ ہے کی وہ زمین میں اُن کو اُسی طرح خلافت دے گاجیسی اَگلوں کو دی۔ اُن کے لیے اُن کے اُس دین کا بول بالا کرے گا جس کو اُن کے لیے پسند فرمایا گیا اور اُن کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا” ۔ اگر ایسا ہو جائے تو اللہ کو اپنا وعدہ پورا کرتے دیر نہیں لگتی۔
ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے لیے وزیرِاعظم کو اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہے نہ کسی آئینی ترمیم کی کیونکہ 1973ء کے آئین میں درج اسلامی دفعات پر مکمل عمل درآمد سے پاکستان اسلامی مملکت کے قالب میں ڈھل سکتا ہے۔ بس شرط یہ کہ نیت میں فتور نہ ہو اور ارادہ غیرمتزلزل ۔ سورة یونس ١٣میں فرمانِ ربی ہے ”ہم نے تم سے پہلی قوموں کو ہلاک کیا جبکہ اُنہوں نے ظلم کیا ۔۔۔۔۔ پھر ہم نے اُن کے بعد زمین میں تم کو خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو”۔ ہم نے قائد کے فرمان کے مطابق اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر یہ زمین کا ٹکڑا حاصل کیا لیکن جب اپنی راہیں بدل دیں تو ربِ لم یزل نے ہماری جگہ کسی اور کو بٹھا دیا(مفہوم التوبہ ٣٩)۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمِ اسلام محکوم اور طاغوت حاکم۔