جدید دور کی سہولیات

The Kitchen

The Kitchen

تحریر : عرفانہ ملک
جدید دورکی سہولیات کی آسانیوں سے ہمیں انکار نہیں، جیسے بازاروں میں مختلف اشیائے ضروریہ دستیاب ہوتی ہیں ویسے ہی گھر کے کچن کے لئے یا کچن کو جدید دورکی چیزوںسے آراستہ کرنے کے لئے ہمیں بعض اوقات اچھی خاصی دقت کا سامنارہتاہے۔کیونکہ ہر عورت یہ چاہتی ہے کہ اس کے جنت نظیر گھرکی طرح اس کا کچن ،جہاںوہ اپنے اوراپنے جگر گوشوںکے لئے حلال رزق تیار کرتی ہے خوبصورت سے بہترین ہو۔لیکن اگر ہم آج کی عورت کا موازنہ ماضی کی عورت سے کریں تو ہمیں آج کی عورت نہایت ہی تن آسان نظرآئے گی،مثلاً آج سے بیس پچیس سال پہلے جب شہر کم آبادتھے اورزیادہ تر لوگ دیہاتوںاورگائوںکی پرلطف اورپرسکون زندگی گزار رہے تھے۔اس دورمیں اکثر دیہاتوں میں بجلی،گیس نام کی کوئی چیزہی نہیںتھی،ان بے چاریوںکوکیسے کیسے جتن کرنے پڑتے تھے،یہ تو ہماری نانی دادیاں ہی بہتر طوربتا سکتی ہیں۔

ہمیں اب بھی یاد ہے جب ہم کسی جان پہچان کے رشتہ دارکے ہاں جاتے تھے تو وہاںکی سادہ زندگی کئی کئی ہفتوںہمیں اپنے سحرمیںجکڑے رکھتی ۔گائوںکی عورتیں قریبی رہٹ سے پانی بھربھر کرلاتیں،ان کے اتنے وزنی مٹکے اٹھانے کی ہمیں بھی کئی بار آرزورہی مگر جسم میںسکت کی کمی اس بات کی اجازت نہیںدیتی تھی کہ ہم ان کے بھاری بھرکم وزنی مٹکے اٹھاکر گھر لاتے ،خیران مٹکوںکا پانی جسم تو جسم روح کو بھی سکون دیتا تھا۔مجال ہے جو ان مٹکوںکا پانی صبح سے شام تک گرم ہواہو۔اسی طرح چکی کاپیسا ہواآٹا،واللہ آج بھی اس کا ذائقہ زبان پر ہے۔اسی طرح گندم کو چکی میں بے چاریاں ساراسارادن پیس پیس کرآٹانکالتیںاورپھر اڑوس پڑوس میں تقسیم کرکے بھائی چارے کی مثالیں کاش آج بھی دیکھنے کومل جائیں۔اس دورکے مقابلے میں آج کی عورت پیسے دیے ،بازارسے سوکھی روٹیوںسے بنا آٹا منگوایا ،اورگوندکرمجازی خدااورجگر گوشوںکو کھلادیا۔

پہلے جیسے پانی کسی کنویں سے لایا جاتا تھا،اب نکلا کھولااورٹینکی کاباسی اورگنداپانی کھانے،آٹاگوندنے اوردیگرچیزوںمیں ملنے لگا۔اس کے بعدآپ ہی فیصلہ کریںکہ کیا ہم بیمارنہیںہونگے،اسی طرح کپڑے دھونابھی اس وقت محال تھا ،پانی کو دھوپ میںگرم کرنا،پھر دھوپ میں بیٹھ کر ساراسارادن کپڑے دھونا،اب تو واش روم میں گریزرکا گرم کیا ہواپانی لیااورجھٹ سے سارے کپڑے دھو ڈالے اورپھر سونے پہ سہاگہ کہ ایک ہی مشین میں گرمی ،سردی ،بارش ،طوفان سے بچنے کیلئے دھونے اورسکھانے والی مشینیں الگ ہماری عورتوںکو کام چوربنانے میں مدد دے رہی ہیں۔سخت گرمی میں مٹی سے بنے ہوئے تندورجوکہ اب بھی ہمارے دیہاتوںمیں دیکھنے کوملتے ہیںاورجوکہ ہماری روایات اورثقافت کے آئینہ دارہیں،میں روٹی پکانااورپھر اس روٹی کاذائقہ آج کی بازاری روٹی ہمیں کبھی نہیںدے سکتی۔آج کی عورت کو سٹارپلس کے بدمزا ڈراموںسے فرصت ہوتوایسے جتن کریںنا۔

Flour

Flour

خیراب تو ہرگلی محلہ میںنانبائی سوکھی روٹیوںسے بھرپور آٹا ہمیں کھلا کھلامختلف قسم کی بیماریوںمیں مبتلا کررہے ہیں۔ہم تو ماضی کی عورت کے جھمیلوںبارے سوچتے ہی اپنی سو چ کا رُخ موڑلیتے ہیںکہ کیسے وہ بے چاریاں بڑاگوشت مٹی کی ہانڈیوںمیں پکاتی یا بھونتی ہونگی،آج کی عورت تو پریشرکوکرلیااورجھٹ سے بڑاگوشت اوراب تو دال چاول بھی گرمی اوروقت کی بچت کی خاطراس میں تیارہونے لگے ہیں۔پریشرکوکرمیں پکاہواکھاناعجلت میں پکا ہواکھاناتو کہلاسکتاہے مگر اس کے کیاکیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟یہ شایدہماری خواتین نہیں جانتی۔کیونکہ ہمارے ہاں اکثردوسے تین نمبر کی چیزوںکی دستیابی نے ہمیں کہیںکا نہیںچھوڑا۔چونکہ ہم پشاورکے باسی ہیں اورپشاورمیں کئی ایک بازارایسے ہیںجن میں غیرمعیاری چیزیں آسانی سے دستیاب ہیں۔

انہی بازاروںسے ہماری خواتین ایسی غیرمعیاری اشیاء ضروریہ خرید کر اپنی اوراپنے گھروالوںکی زندگی اجیرن تو کبھی مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔ اوراسی بازاری اورغیرمعیاری پریشر کوکرکی وجہ سے اب تک کئی خواتین اپنی قیمتی جانوںسے ہاتھ دھوچکی ہیں۔جیسے گزشتہ روز کا واقعہ کہ ایک خاتون خانہ اپنے باورچی خانے میں کھانا بنارہی تھی،اسی دوران دھیان ہٹنے سے پریشرکوکرنے اپنا کام دکھایا،اوربے چاری بری طرح سے جھلس گئی۔ایسے اوراس قسم کے درجنوںواقعات روزانہ نہ سہی تو ہفتے میں ایک دوبار تو ہر گھرمیں پیش آتے رہتے ہیں۔

لیکن مجال ہے جو ہم اس کی روک تھام کے لئے ہو ش کے ناخن لیں۔کیونکہ زندگی ایک ہی بارملتی ہے اوراگر اس زندگی کو ہم اپنی چھوٹی سی لاپرواہی کی نذرکردیں تو یقینا یہ سب سے بڑی بے وقوفی کہلائے گی۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ان تمام بازاری ناقص اورغیرمعیاری اشیائے ضروریہ کا استعمال ترک کردیں جن سے ہماری زندگی جوکھم میںپڑسکتی ہے۔زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اسے اس کا حق دیں۔شکریہ۔

Irfana Malik

Irfana Malik

تحریر : عرفانہ ملک