تحریر : علی عبداللہ زمانہ قدیم میں لوگوں کو غلام بنانے کا رواج عام رہا ہے اور اسکے آثار 18ویں صدی قبل مسیح سے بھی پہلے جا کے ملتے ہیں ـ یونان ہو یا روم، امریکہ ہو یا عرب غلاموں کی تجارت ہر جگہ موجود رہی ہےـ تاریخ کے سینے پر غلاموں پر مظالم اور ناروا سلوک کے بے شمار قصے نقش ہیں ـ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 19ویں صدی کے نصف تک غلاموں کی تجارت عروج پر رہی یہاں تک کہ 1830 سے 1860 کے درمیان غلاموں کے حقوق کے لیے مختلف تحریکوں نے زور پکڑا اور بلآخر 1865 میں امریکہ میں سرکاری سطح پہ غلاموں کی تجارت اور غلام بنانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئیـ اس کے دیکھا دیکھی دنیا بھر میں غلامی کی حوصلہ شکنی ہوئی اور عالمی سطح پر اسے انسانی حقوق کے خلاف قرار دے کر غلامی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیاـ
غلامی کو دنیا میں ختم ہوئے تقریباً 152 سال گزر چکے ہیں لیکن اب بھی 40 ملین لوگ جدید غلامی کا شکار ہیں ـ شمالی کوریا کے قیدی کیمپ ہوں یا عراق و شام کے جنگی محاذ، برصغیر کے اینٹوں کے بھٹے ہوں یا مشرقی یورپ کے قحبہ خانے ، غلامی کی یہ جدید شکل ہر جگہ منہ کھولے لوگوں کی زندگیوں کو نگل رہی ہے ـ جدید غلامی کا رواج ترقی پذیر ممالک اور ان جگہوں پر جہاں نسلی منافرت پائی جاتی ہو میں موجود ہونے کے ساتھ ساتھ چند ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے ـ ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں 71 فیصد خواتین اور 29 فیصد مرد جدید غلامی کا شکار ہیں ـ ان میں 24.9 ملین افراد جبری مزدوری اور مشقت جبکہ 24.4 ملین لوگ جبری شادیوں کا شکار ہیں _ اسی طرح 10 ملین بچے چائلڈ لیبر کی صورت اور 4.8 ملین لوگ جنسی استحصال کی شکل میں جدید غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ـ
جدید غلامی کا مطلب بنیادی طور پر انسانیت کا استحصال ہے جو کہ کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے ـ موجودہ دور میں ڈرا دھمکا کر جبری مشقت کروانا، غربت کے باعث ادھار چکانے کے بدلے مالکوں کے لیے کام کرنا، انسانی سمگلنگ، چائلڈ میرجز،چائلڈ لیبر اور خواتین کی زبردستی شادیاں وغیرہ جدید غلامی کے زمرے میں شامل ہیں ـ جدید غلامی انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے اور ایسے لوگ اپنے آزادانہ فیصلوں سے محروم رہ کر عمر بھر اسی چنگل میں پھنسے رہ جاتے ہیں ـ جدید غلامی کسی بھی نسل، عمر اور جنس کے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہے ـ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جدید غلامی صرف ترقی یافتہ ممالک میں جبری مشقت کی صورت موجود ہے مگر ایسا نہیں بلکہ یہ ہر ملک اور ہر علاقے میں موجود ہو سکتی ہے ـ یہاں تک کے برطانیہ میں سرکاری اندازے کے مطابق کئی ہزار لوگ کسی نہ کسی شکل میں اس جدید غلامی کا شکار ہیں ـ
دنیا بھر میں جدید غلامی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں کئی ممالک میں سخت قوانین لاگو کیے جا چکے ہیںـ آئی ایل او کے بہت سے قوانین موجود ہیں جو جدید غلامی کو مسترد کرتے ہیں جن میں فورسڈ لیبر کنونشن 29،کنونشن 105،ایج کنونشن 138 اور چائلڈ لیبر کنونشن 182 شامل ہیں ـ اسی طرح ماڈرن سلیوری ایکٹ 2015 اور یونیورسل ڈیکلیریشن آن ہیومن رائٹس بھی جدید غلامی کی سختی سے مذمت کرتے ہیں ـ
واک فری فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے لوگ سب سے زیادہ جدید غلامی کے شکنجے میں ہیں لیکن یہاں قوانین کا مؤثر انداز میں لاگو نا ہونا اور غربت اس تعداد کو دن بدن مزید بڑھا رہا ہے ـ تشویش ناک بات یہ ہے کہ غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں دونوں ملکوں کی مجبور عوام مختلف مافیا کے ہاتھوں ملکی معیشت کو کمزور تو کر ہی رہی ہے مگر ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی جدید غلامی کا طوق پہنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہےـ