اردو زبان و ادب کے بہت سے دیگر طالب علموں کی طرح اردو زبان کے ممتاز شاعر عباس تابش سے میری شناسائی کا سبب بھی ان کا یہ شہرہ آفاق شعر ہے۔
عباس تابش نے 1975ء میںپندرہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیے اور تبھی ان کی پہلی غزل روزنامہ “آفتاب” ملتان میں شائع ہوئی لیکن یہ خوبصورت شعر عباس تابش نے1985ء میں کہا۔یہ شعر کہتے ہی وہ شہرت کے بامِ عروج پر جا پہنچے ۔دنیا کی کسی بھی زبان کا نثری ادب ہو یا شعری “ماں” ہر زبان کے ادیب شاعر اور لکھاری کا محبوب ترین موضوع رہا ہے۔
کوئی بھی تخلیق کار جب تک ماں کی عظمت کو موضوع ِ سخن نہیں بناتا ،اور اس انمول ہستی کو خراجِ عقیدت پیش نہیں کرتا وہ اپنی لکھت سے مطمئن نہیں ہو پاتا۔عباس تابش نے جس بے نظیر انداز میں ماں کی عظمت کو اپنے شعری پیرائے میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے،بلاشبہ وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ماں جیسی عظیم المرتبت ہستی کی بے ریا محبتوں ،رفعتوں اور پاکیزہ جذبوں کی سچی روداد کو اپنے اندر سموئے ہوئے عباس تابش کے اس شعر کا مرتبہ بھی گویا وہی ہے جو مومن خان مومن کے اس شعر کا ہے۔
گو معنی و مفہوم اور اپنی ہیئت کے اعتبار سے مذکورہ دونوں اشعار جتنے بھی مختلف ہوں ،لیکن دونوں اشعار کا فکری اور شعری مقام بہت بلند و بالا ہے۔
جدید اردو غزل کے وارث عباس تابش کا اصل نام غلام عباس ہے۔ان کا تعلق راجپوت بھٹی گھرانے سے ہے۔عباس تابش کے آبائواجداد شجاع آباد کے رہنے والے تھے ۔ ان کے والد میلسی منتقل ہو گئے ۔عبا س تابش 15جون1961ء کو میلسی ،ضلع وہاڑی میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی ۔1977ء میں میلسی سے میٹرک کیا ،اور میٹرک کرنے کے بعد مختلف علاقائی اخبارات کیلئے کام کرنے لگے۔ایف اے پرائیوٹ طور پر 1981ء میں کیا ۔ایف اے کرنے کے بعد لاہور آ گئے اور روزنامہ جنگ جوائن کر لیا۔
رونامہ جنگ میں ملازمت کے دوران ہی انھوں نے 1984ء میں بی اے کیا جبکہ 1986ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کرنے کے بعد بطور لیکچرار اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ۔مختلف کالجز میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔اب گورنمنٹ کالج گلبرگ لاہور کے شعبہ اردو کے سربراہ ہیں ۔عباس تابش زمانہ طالب علمی میں گورنمنٹ کالج لاہور کے رسالہ ” راوی ” کے ایڈیٹررہے۔ان کے خاندان کے زیادہ تر لوگ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔ان کے والد علم و ادب سے والہانہ لگائو رکھتے تھے۔
اس لیے انھیںابتدائی طور پر گھر میں ہی تاریخی وعلمی کتب بینی کا بھرپور ماحول میسررہا۔بچپن میں ہی انھیں” بانگِ درا” یاد کرائی گئی لیکن عباس تابشکی شاعری کی ابتداء ایک عجیب واقعہ سے ہوتی ہے۔ وہ جب نویں جماعت کے طالب علم تھے تو ایک رات وہ اپنے گھر میں نصابی مطالعہ میں مصروف تھے اور انھیں باہر سے کچھ آوازیں سنائی دیں ۔ وہ جب اِن آوازوں کا پیچھا کرتے ہوئے گھر کے قریب ایک باغ جسے ٹائون کمیٹی کہتے ہیں وہاں پہنچے تو دیکھاکہ ایک صاحب کچھ سنا رہے ہیں اور باقی مجمع واہ ،واہ کر رہا ہے۔عباس تابش کو یہ منظر کچھ عجیب سا محسوس ہوا ،کیونکہ یہ ان کیلئے ایک نئی بات تھی۔
گھر واپس آ کر انھوں نے سوچا کہ یہ کام تو وہ بھی کر سکتے ہیں ۔بس اُسی رات انھوں نے کچھ لکھا اور ان کی شاعری کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے۔عباس تابش کے بقول،اس رات جو صاحب اپنی شاعری سُنا رہے تھے انھیں خبر نہ تھی کہ شاعری میں ان کے پہلے استاد یہی شخصیت ہونگے۔
یہ شاعر تھے میلسی سے تعلق رکھنے والے نذیر اذفر۔ عباس تابش نے سب سے پہلے شعری اصلاح نذیر اذفر سے لی جبکہ لاہور آنے کے بعد ممتاز شاعر خالد احمد سے وہ اصلاح لیتے رہے اور ان کا پہلا شعری مجموعہ”تمہید” جو 1982 ء میں منظر ِ عام پر آیااسے بھی خالد احمد نے شائع کیا۔
عباس تابش کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر اور شعری شناخت کو اپنے اس بے مثال شعر تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ ایک تسلسل کے ساتھ اچھے شعر کہہ رہے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہ صرف اردو شاعری کے میدان میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ ان کی وسیع فکر اورپختہ تخلیق کا رنگ نمایاں ہو کر سامنے آیا۔
عباس تابش کی مشقِ سخن کا محور و مرکز غزل ہے ۔وہ جدید اردو غزل کے بے تاج بادشاہ ہیں۔بلاشبہ جب کبھی اردوشاعری کی تاریخ مرتب ہو گی تو عباس تابش کی غزل کو ایک معتبر اور مستند حوالہ کے طور پر اس میں شمار کیا جائے گا۔عباس تابش کی غزل کے مختلف رنگ اور روپ ہیں لیکن ان کی غزل میں بڑی خوبی اور حسن یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر رنگ میں کہی گئی غزل دل پہ اثر کرتی ہے ۔شعری موضوعات پر انھیں دسترس حاصل ہے وہ اپنے شعری پیرائے میں الفاظ کا چنائو اس عمدگی اور خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں کہ سادہ سے سادہ لفظ بھی ان کے شعروں میںجب ڈھلتے ہیں تو ان الفاظ کی چاشنی ،کشش اور لطافت کا معیا ر بہت بلند محسوس ہوتا ہے ۔وہ ایک ایسے سنجیدہ فکر تخلیق کار ہیں جن کی تخلیقات میں علم،عمل اور انسانی سر بلندی کا تذکرہ نمایاں اندا ز میں ملتا ہے ۔انھوں نے اس عہد میں اردو غزل کی روایت اور آبرو کو جلا بخشی ہے۔
شہرہ آفاق شاعر” افتخار عارف” عباس تابش کی شاعری کے بارے میں رقمطراز ہیں : ” عباس تابش اردو غزل کی روایت کو ثروت مند بنانے والی نسل کے میرے نزدیک سب سے نمایاں شاعر ہیں ۔ایک مکمل شاعر جو غزل کی کلاسیکی روایت کے دائروں میں رہتے ہوئے مضمونِ تازہ کی نئی راہیں نکالتا ہے اور غزل بہ غزل اور کتاب بہ کتاب بلندیوں کی طرف گامزن ہے۔عباس تابش اپنی نسل کے مقبول ترین شاعروں میںسے ہیں”۔
عباس تابش کی شاعری اس عہد کا وہ سچ ہے جس کی آواز اور گونج ہر سمت سنائی دیتی ہے ۔وہ زندگی کے ہر احساس کو کھل کر اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں ۔ان کی شعری ریاضت،تخلیقی فکر،شعر و سخن کے فن کا تسلسل اور روز افزوں ان کی مقبولیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ شاعری ہی ان کا پہلا اور آخری عشق ہے۔عباس تابش اردوغزل اور روایت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
“روایت جو ہے یہ ایک بڑا جنگل ہے اور شاعر کیلئے اس جنگل میں جانا بھی بہت ضروری ہے ۔بہت سے شعراء ہمارے جو کہ کم درجہ کے شاعر ہوتے ہیں وہ اس جنگل میں کھو جاتے ہیں ۔ان کو واپسی کا راستہ نہیں ملتا ،لیکن وہ شاعر جس نے اپنا جواز پیدا کرنا ہے ،موجودہ عہد کیلئے اور آنے والے عہد کیلئے وہ اس جنگل سے راستہ بنا کے باہر آتا ہے،اور ایک ایسی راویت کے ساتھ آتا ہے جو تازگی سے لبریز ہوتی ہے ۔تازگی جو ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب سے بڑی چیز ہے غزل کیلئے ۔نیا شاعر جو آتا ہے اس کی غزلوں میں ابتدائی طور پر بڑی تازگی ہوتی ہے۔یہ نیچرل ہوتی ہے لیکن اگر اُس کا مطالعہ ہے ،اور روایت کے جنگل میں گیا ہے،پھر وہاں سے نکلا ہے تو میرا خیال میں وہ اپنی تازگی کو دیر تک قائم رکھ سکتا ہے۔اس کی تازگی کبھی ختم نہیں ہو گی اور جو ایسا نہیں کرتے وہ پھر اپنی تازگی کو جلد بسر کر لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد یا شاعری چھوڑ دیتے ہیں یا ان کی شاعری میں نئے مضامین اور تازگی دیکھنے کو نہیں ملتی”۔
قادرالکلام شاعر احمد ندیم قاسمی عباس تابش کی شاعری کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں: “عباس تابش کے نزدیک شعر ایک ذاتی واردات کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ اسے کوئی نظریہ یا کوئی فلسفہ نہیں سمجھتا ،اگر اس کے اشعار پڑھتے ہوئے آپ پر بھی وہی کیفیات وارد ہوتی چلی جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ دوسری صورت میں عباس تابش آپ کو مجبور تامل نہیں کرے گا کہ یہ اس کا مسلک نہیں ۔وہ تو اپنی بات اپنے انداز میں کرتا چلا جاتا ہے ۔کوئی اس کے تجربے کا حصہ دار ٹھہرتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر کوئی اس کے تجربے کا حصہ دار نہیں بن پاتا تو بھی ٹھیک ہے کہ عباس تابش اپنی طبیعت میں نیاز رکھتے ہوئے بھی ذرا ہٹ دھرم واقع ہوا ہے”۔
عباس تابش کا تخلیقی سفر کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔اب تک ان کے چھ شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں “تمہید”،”آسمان”،”مجھے دُعائوں میں یاد رکھنا”،”پروں میں شام ڈھلتی ہے”،”رقصِ درویش”،” شجر تسبیح کرتے ہیں”اور کلیات “عشق آباد” شامل ہیںجبکہ ان کا شعری انتخاب “سلسلہ د لد اری کا”بھی چھپ کر منظرِ عام پر آ چکا ہے جسے شکیل جاذب نے مرتب کیا ہے۔