نئی دلی (جیوڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ان کے اپنے ملک کے لوگوں کی اکثریت گجرات میں مسلم کش فسادات کی وجہ سے قصائی کہتی ہے لیکن بھارت کو ترقی کی راہ میں گامزن کرنے کا عہد لے کر مودی نے جو کابینہ بنائی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ ان کی کابینہ کے آدھے ارکان خود مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
نریندر مودی کو بھارتی عوام نے رواں برس بھاری مینڈیٹ دے کر وزارت عظمیٰ کے مسند پر بٹھایا ہے تاکہ وہ اپنے ماضی کے برعکس ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود کے لئے کام کرسکیں، اس مقصد کے لئے وہ بھی بڑے بڑے وعدوں اور نئے نئے اقدامات کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں، اب نریندر مودی کو بھارت کی خدمت کرنا ہے تو انہیں اپنی ٹیم بھی باکردار اور اچھی شہرت کے حامل افراد کو شامل کرنا ہے، اسی لئے انہوں نے دو روز قبل اپنی کابینہ میں اضافہ کیا اور 21 نئے وزرا کو اپنی ٹیم میں شامل کیا جس کے بعد کابینہ کے ارکان کی تعداد 66 ہوگئی ہےلیکن صورت حال یہ ہے کہ کابینہ میں شامل آدھے وزرا مجرمانہ وارداتوں اور سنگین انتخابی بے ضابطگیوں میں ملوث ہیں۔
نریندر مودی کی کابینہ میں شامل 31 وزرا کے خلاف بھارت کے مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں جن میں سے 20 وزرا پر جرائم کے واقعات میں بالواسطہ جبکہ 11 وزرا پر براہ راست ملوث ہونے کے الزامات ہیں ، چند ایک تو ایسے بھی ہیں جن کے خلاف قتل، اقدام قتل اور مذہبی فسادات کو ہوا دینے کے مقدمات درج ہیں، ریاست بہار کے شہر نیواڈا سے کامیاب ہونے والے بی جے پی کے رہنما گریراج سنگھ پر تو انتخابی عمل میں براہ راست اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے اور ووٹرز کو ڈرانے دھمکانے کا الزام ہے۔
یو پی کے رام شنکر کاتھریہ کو مسلم کش حوالوں سے اس قدر بدنام ہیں کہ کانگریس پارٹی نے بھی ان کی کابینہ میں شمولیت کو شرمناک قررا دے دیا ہے کیونکہ پولیس کے پاس ان کے خلاف کئی واقعات میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔