بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے لداخ کے حوالے سے چین کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران لداخ کے حوالے سے چین کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے کے لیے حکومت پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا،”نریندر مودی بزدل ہیں اسی لیے چین کے سامنے ثابت قدم نہیں رہ پائے۔”
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لداخ کے حوالے سے بھارت اور چین کے درمیان سمجھوتے کی تفصیل جمعرات کے روز پارلیمان کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ لائن آف ایکچوول کنٹرول(ایل اے سی)پر کشیدگی کم کرنے کے مقصد سے فریقین نے بعض مقامات سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹانی شروع کر دی ہیں۔
بھارتی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ”میں ایوان کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے پختہ ارادوں اور دیرپا مذاکرات کے نتیجے میں پینگانگ جھیل کے شمال اور مغربی کناروں سے فوجوں کے پیچھے ہٹانے سے متعلق چین کے ساتھ ایک سمجھوتہ ہو گیا ہے۔”
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت نے بیجنگ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے بھارت کی بہت ساری زمین چین کو دے دی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو یہ موقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ سرحد پر اپریل سے پہلے کی صورتحال کو بحال کیا جائے۔ تاہم اب یہ کہا جارہا ہے کہ بھارتی فوج فنگر چار کے بجائے تین تک محدود رہے گی جبکہ فنگر چار تک بھارت کا علاقہ ہے، تو پھر وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی سرزمین کو چین کے حوالے کیوں کر دیا؟ ”
راہول گاندھی نے سخت لہجے میں کہا، ”وزیر اعظم مودی ایک بزدل شخص ہیں جو چین کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ہماری فوج کی طرف سے دی گئی قربانیوں کے ساتھ یہ غداری ہے۔ بھارت میں کسی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔”
راہول گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی سالمیت اور سرحدوں کی تحفظ کی ذمہ داری وزیر اعظم کی ہوتی ہے اور وہ اسے کیسے انجام دیتا ہے یہ ان کا
مسئلہ نہیں ہے۔ مسٹر گاندھی نے اس موقع پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پر بھی اس بات کے لیے سخت تنقید کہ آخر انہوں نے، ”دفاعی نکتہ نظر سے بہت اہم میدانی علاقے ڈیپسنگ کے بارے میں بات کیوں نہیں کی۔”
ان کا کہنا تھا، ”چین ڈیپسنگ کے اندر آکر بیٹھاہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری مقدس سر زمین کو مودی نے چین کے حوالے کر دیا ہے۔”
بھارت میں دفاعی ماہرین کہتے رہے ہیں کہ ڈیپسنگ کے میدانی علاقوں میں بھارت کے تقریباً 20 کلو میٹر اندر چینی فوجیں گشت کر رہی ہیں جبکہ گزشتہ برس مئی سے پہلے تک اس پورے علاقے پر بھارت کا کنٹرول تھا۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جس سمجھوتے کی تفصیلات ایوان کو بتائی تھیں اس کے مطابق فریقین نے ابھی صرف پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے جبکہ دیگر متنازعہ علاقوں سے متعلق فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور وہاں اب بھی صورت حال جوں کی توں برقرار رہے گی۔
راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ پینگانگ جھیل کے، ”مشرق کی سمت شمالی کنارے پر چین اپنی فوج فنگر آٹھ کے پاس ہی رکھے گا جبکہ بھارت اپنی فوجی یونٹ فنگر تین کے پاس اپنی مستقل پوسٹ دھن سنگھ تھاپا چوکی کے پاس تعینات کرے گا۔ جھیل کے جنوبی ساحلی خطے میں بھی فریقین کی طرف سے ایسی ہی کارروائیاں کی جائیں گی۔”
بھارتی وزیر دفاع نے اس موقع پر یہ دعوی بھی کیا کہ بھارت نے چین سے یہ معاہدہ کرنے کے لیے اپنی ایک انچ بھی زمین کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے بھارت نے کبھی بھی چینی دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ برس اپریل تک بھارت پینگانگ جھیل کی فنگر آٹھ تک گشت کیا کرتا تھا اور تنازعے کے بعد چین نے اسے فنگر چار تک محدود کر دیا تھا۔ تاہم اب نئے معاہدے کے تحت اس کی فوج فنگر تین کے پاس ہی رکے گی۔