جیسے جیسے انتخاب کے دن قریب آ رہے ہیں ، ویسے ویسے بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی حکومت کے وزرأ کی گھبراہٹ، چھٹپٹاہٹ، بے چینی،بے قراری بڑھتی جا رہی ہے اور اس عالم میں یہ لوگ تمام حدوں کو پار کررہے ہیں۔ بار بار الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے انتباہ کے باوجود یہ لوگ آئینی اور جمہوری قدروں کی پامالی کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں ۔ اب انتہا تویہ ہو گئی کہ اپنے انتخابی مہم میں حکومت کے ذمّہ داروں کے ذریعہ مسلسل فوجیوں کے غلط طور پر استعمال پر الیکشن کمیشن کے منع کئے جانے کے باوجود نہیں ماننے پر بحریہ کے سابق سربراہ ایل رام داس نے بھی الیکشن کمیشن سے شکایت کرتے ہوئے فوجیوں کے بے جا استعمال پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ادھر الیکشن کمیشن خود راجستھان کے گورنر کلیان سنگھ کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایت کرنے صدر ہند کے پاس پہنچا ۔ لیکن وہاں کیا کاروائی ہوگی ، اس کا بھی بخوبی اندازہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عشق اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور اس ماہ کی ١١ اپریل سے شروع ہونے والا لوک سبھا کا عام انتخاب بھی جنگ کے زمرے میںہی شامل ہے۔
اس لئے اس انتخاب میں جو کچھ بھی حکومت کے ذمّہ داروں کے ذریعہ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے، وہ سب حیرت و استعجاب میں ڈبو نے والا ضرورہے ،لیکن چونکہ(انتخابی) جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے،پھر بھی ملک کے لو گ محو حیرت ہیں کہ اتنا سفید جھوٹ اورغیر مہذب الفاظ اتنے باوقار اور ذمّہ دار افراد کیسے ادا کر رہے ہیں ۔ انتہا تو یہ ہے کہ ابھی ابھی تریپورہ ہائی کورٹ نے اپنے ایک مضحکہ خیز فیصلہ میں کہا ہے انتخابی تقاریر اور بیان کے درمیان گالم گلوج اورنا شائستہ الفاظ جرم کے دائرے میں نہیں آتا ۔ شکر ہے کہ کورٹ نے انتخا بی دور کی شرط لگا دی ہے اور یہ نہیں کہا کہ کسی بھی سیاست داں کی زبان سے ادا کی جانے والی گالیاں، گالیوں کے زمرے میں نہیں آئینگی۔
اگر ایسا ہوتا تو پورے پانچ سال تک ملک کے سیکولر اور امن پسند لوگ جس طرح ،طرح طرح کی گالیاں سنتے رہے ، وہ بے مزہ نہیں ہوتے اور اس وقت تک یعنی انتخاب تک گالیوں کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ۔دراصل اقتدار کا نشہ ، ایسا نشہ ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس تناظر میں ہم گزشتہ پانچ سال تک چلنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ( درپردہ آر ایس ایس کی) حکومت کا ایک عمومی جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2014 ء کے عام انتخابات میں بلا شبہ بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی، اس لئے اس پارٹی اور اس پارٹی کی برسراقتدار آنے والی حکومت کی خوشی اور خوش فہمی بالکل فطری تھی۔لیکن یہ پارٹی اپنی اس حاصل شدہ بھاری اکثریت ، خوشی اور خوش فہمی کے ساتھ ساتھ اگر اپنے ملک و قوم کی سا لمیت، ترقی،تحفظ اورخوشحالی کی جانب مثبت سوچ، فکر اور عوامی مفادات کے لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھتی ،تو یقینی طور پر ملک کے عوام کے لئے ایک اہم اور مقبول پارٹی بن کر سامنے آتی ، اور بہت ممکن تھا کہ کانگریس پارٹی ،جو آزادی کے بعد سے تقریباََ مسلسل برسراقتدار رہی، اس کی متبادل بن کر ابھرتی ۔ برسہا برس اقتدار میں رہ کر کانگریس پارٹی کی کئی محاذ پر ناکامیوں خصوصاََ غربت،بے روزگاری،بدعنوانی، تعلیم ، صحت اورجرائم جیسے بہت ہی اہم اور بنیادی مسائل پر خصوصی توجہ دے کر ان مسائل کو موجودہ حکومت حل کرنے کی عملی کوشش کرتی ، تو کوئی طاقت ایسی نہیں ہوتی، جو اس حکومت کی مخالفت کرتی۔
افسوس کہ بھاجپا کو ملنے والی بھاری اکثریت نے اسے اس قدر مغرور کر دیا اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والوںکے اندر اتنا تکبر پیدا کر دیاکہ ان لوگوں نے عوام کے بنیادی مسائل کو پوری طرح فراموش کرتے ہوئے اپنے آقا آر ایس ایس کے ایک مخصوص نظریہ ‘ہندوتوا’ کو گھر گھر پہنچانے کے لئے رام مندر،لوجہاد،،گھر واپسی،گؤ مانس،گؤرکچھا،عدم رواداری، کنھیا،پاکستان بھیجو،بنگلہ دیش،وندے ماترم،عامر خان، سلمان خان، شاہ رخ خان،بھارت ماتا کی جئے، تین طلاق، پرسنل لا ٔ ، وغیرہ جیسے بے فضول اور لا حاصل مدعوںکونافذ کرنے کی کوششیں ہونے لگیں تاکہ منافرت اور خوف ودہشت کا ماحول تیار کراپنے ایجنڈے ‘ہندوتوا’ کو نافذ کیا جا سکے۔ لیکن ہوا ٹھیک اس کے برعکس، ماحول سازگار کیا بنتا، بلکہ ان کوششوں میں حکومت اور پارٹی، آر ایس ایس کے حکم کو نافذا لعمل کرنے میں اس قدر منھمک ہو گئی کہ عوامی مسائل سے یہ پوری طرح غافل ہو گئی اور صرف جھوٹے وعدے، طرح طرح کے خو شنمأ خواب اورحقیقت سے کوسوںدور کے دعوے کئے جاتے رہے۔عوام نے جن امیدوں کے ساتھ ان کے ،کئے گئے وعدوں اور دعٰوںپر بھروسہ کر کے کانگریس (یوپی اے) کوشکست دے کر بھاجپا(این ڈی اے ) کو حکومت کی باگ ڈور سونپی تھی۔ وہ تمام امیدیںبہت جلد ٹوٹ کر بکھر گئیں۔ لوگ بھوک، پیاس ،غربت، بے روزگاری، مہنگائی،بدعنوانی،اور جرائم سے تو پریشان تھے ہی ، ساتھ ہی ساتھ ان میں مذید اضافہ یہ ہوا کہ عوام کا سکون اور چین ختم کر دیا گیا۔
برسہا برس سے ایک ساتھ شیر و شکر کی رہنے والے مختلف ذات اور مذاہب کے لوگوں کے اندر طرح طرح سے منافرت،خوف ودہشت پیدا کرنے کی منظم کوششوں سے ملک کا سیکولر طبقہ ، جو بلا شبہ اکثریت میں ہے، وہ بھی اس حکومت سے ناراض ہوتا چلا گیا ۔ کلبرگی،دابھولکر، پنسارے اور گوری لنکیش وغیرہ جیسی شخصیات کا سیکولر ہونے کی پاداش میںبے دردی اور بے رحمی سے قتل کئے جانے سے ملک کی غالب اکثریت کی ناراضگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ۔ملک کے دانشور وں نے ملک کے اندر بڑھتی منافرت ، خوف و دہشت اور عدم رواداری کے خلاف احتجاج میں اپنے ایوارڈ تک واپس کر دئے ۔ جس سے موجودہ حکومت کو سیاسی اور سماجی سطح پربھاری نقصان ہوا۔ملک میں بڑھتی غربت کے باعث بھوکے رہنے والوں کے تعلق سے اقوام متحدہ کے Food and Agriculture organization کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت کی موجودہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے 30 کروڑ لوگ ہر دن بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں ۔ اس رپورٹ سے بھی بی جے پی حکومت کے جھوٹے دعوے کی پول کھلی۔ ملک کے نوجوان اپنی بے کاری سے پریشان اور خوف زدہ ہیں ، ملک میں نوکریوں کی تعداد بڑھتی کیا ، اور ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار ملنے کا وعدہ وفا کیا ہوتا کہ دن بدن حکومت کی غلط پالیسیوں اور منصوبوں کلے باعث نوکری گھٹتی ہی جا رہی ہے، آئی ٹی سیکٹر میں زبردست مندی نے نوجوانوں کے ہوش اڑا دئے ہیں اور انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے ۔ دن بدن جی ڈی پی ( مجموئی قومی پیداوار) لگاتار گرتا جا رہا ہے ۔ ملک کے تمام بینک زبردست خسارے میں چل رہے ہیں۔ADB نے بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ہونے والے بھاری نقصان کو وجہ بتاتے ہوئے بھارت کا ترقیاتی درجہ گھٹا دیا ہے۔
سشما سوراج، وسوندھرا راجے سندھیا ، شیو راج سنگھ چوہان ،یدورپّا وغیرہ نے بدعنوانی کاپچھلاسارا ریکارڈ توڑ کر نیا ریکارڈ بنا دیا ۔بیرون ممالک کے بینکوں میں ہمارے کرپٹ سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے ذریعہ جمع کئے گئے کالے دھن کو واپس لائے جانے کا وعدہ وفا کیا ہوتا ، اس کے برعکس ملک کے بینکوںکو اربوں روپئے کا چونا لگا کر ملک کا گورا (سفید) دھن بھی کئی مودیوں اور وجئے مالیا جیسے لوگ لے اڑے اور ہماری حکومت دانستہ طور پرخاموش تماشائی بنی رہی ۔ راہل گاندھی کے بیان پر یقین کیا جائے تو ان کی یہ بات حیر ت میں مبتلا کرنے والی نہیں ہے کہ ملک کا سب سے بڑا گھوٹالہ نوٹ بندی ہے ۔ یہ الزام سچ کے قریب اس لئے بھی لگتا ہے کہ نوٹ بندی کی طئے شدہ تاریخ کے بعد بھی گجرات کے مختلف علاقوں کے بینکوں میںلاکھوں کروڑ روپئے جمع ہوتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ نوٹوں کی چھپائی میں جس طرح پانی کی طرح پیسے بہائے گئے ۔ ان سب حالات نے مل کر جہاں ایک جانب مُٹھی بھر لوگوں کی تجوریوں کو بھرا ، وہیں دوسری جانب ملک کی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا ۔ جس کی تفصیلات ریزرو بینک آف انڈیا کے قضیہ میں پرت در پرت کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی سپریم کورٹ نے ایسے سیاسی لیڈران کی بہت کم مدت میں تیزی سے بڑھتی جانے والی جائداد اور آمدنی پر بھی سخت نوٹس لیتے ہوئے ملک کے 289 سیاسی رہنماوںکے املاک سے متعلق حکومت سے جواب طلب کیا تھا ، جس کا ابھی تک خاطر خواہ جواب حکومت نے نہیں دیا ہے۔
ابھی ابھی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک سؤ اکیاون شہروں میں جس قدر شاندار اور ہائی ٹیک دفاتر تعمیر کرایاہے اور ہر دفتر ،ہر طرح کی سہولیات سے مذین ہے ۔ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی دولت مندی کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ کاش کہ بی جے پی نے جس طرح اتنے سارے شہروں میں اپنے دفتر کے لئے اتنی شاندار عمارتیں تعمیر کرائیں ، اس کی بجائے ان شہروں میں اسپتال یا اسکول کی ایسی عمارتیں تعمیر کراتی تو شائد اس کے کھاتے میں ایک اچھا کام شمار کیا جاتا ۔ لیکن یہاں بھی بی جے پی نے ملک کے عوام کی بجائے اپنی پارٹی کی ترقی کو ترجیح دی۔ بی جے پی نے صنعت کاروں سے چندہ لینے میں بھی پچھلا سارا ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ ابھی ابھی سپریم کورٹ نے ایک عرضی سماعت کے لئے قبول کیا ہے ۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ صنعت کاروں اور دیگر تجارتی اداروں کے ذریعہ دئے جانے والے دو ہزار کروڑ روپئے کے چندہ میں بی جے پی نے 97% چندہ لے کر ایک ریکارڈ بنایا ہے ، بقیہ 3% میںملک کی دوسری سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔
اس پورے پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح موجودہ مودی حکومت مخالف آوازیں اٹھ رہی ہیں ، وہ یقینی طور پر مودی حکومت کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ مشکل یہ بھی ہے کہ اس وقت مودی حکومت پر ہر چہار جانب سے ان کے ہمنوا بھی بہت ہی جارہانہ حملے کر رہے ہیں اور حکومت کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں ۔شتروگھن سنہا، یشونت سنہا، ارون شوری،مرلی منوہر جوشی وغیرہ جیسے صف اوّل کے بھاجپا رہنماوں کے ساتھ ساتھ نو نرمان سینا کے صدرراج ٹھاکرے نے مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ جس سوشل میڈیا کی مدد سے نریندر مودی نے 2014 ء میں اقتدار حاصل کیا تھا ، وہی سوشل میڈیا ان دنوںمودی اور بھاجپا پر بھاری پڑ رہا ہے۔ جیسا بوتے ہیں ، ویسا ہی کاٹتے ہیں ‘۔ مہاراشٹر حکومت میں شامل اور ابھی بی جے پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنے والی شیو سینا کے رہنما نے بھی کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک بیان میں مودی حکومت کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کے رہنما معاشی بحران کے خلاف بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال شائد غلط نہیں کہ اس وقت ملک بہت ہی نازک اور خطرناک دور سے گزر رہا ہے ۔ لیکن حکومت جس طرح جان بوجھ کربے حس اور لا تعلق بنی ہوئی ہے ، اسے دیکھتے ہوئے اس کی بے بسی کا احساس ہو رہا ہے اور حکومت اور بھاجپا دونوں ہی کی بہت تیزی سے گرتے گراف سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں مودی مخالف ہوا چل رہی ہے اورمودی حکومت کی اب یقینی طور پر الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے ۔بی جے پی کے لو گ بشمول مودی، یوگی اور شاہ وغیرہ کی بوکھلاہٹ دیکھتے بن رہی ہے۔ ہر وہ حربہ جو ہندو مسلم اتحاد کو ختم کر ان کے ایجنڈہ ‘ہندوتوا’ کو متاثر کرے اور ملک کے ووٹر، تمام تر، ترقیاتی کاموںنیز، بھوک، پیاس ،بے روزگاری، مہنگائی،غربت، نا خواندگی،بہتر صحت کی عدم سہولیات جیسی بنیادی مسائل کو بھول کر انھیں ووٹ دیں ، ایسی کوششیں ہو رہی ہیں ، ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وزیر اعظم جیسے باوقار عہدہ پر رہنے والی شخصیت بھی ہندو کارڈ کھیلنے کو مجبور ہو جائے اور اپنی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لئے ملک کے ہند اکثریت کو کانگریس کے خلاف للکارتے ہوئے اور سفید جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہے کہ اب سے پہلے کسی نے بھی ہندوؤں کو بدنام کرنے کے لئے ہندو دہشت گردی کا نام نہیں لیا تھا۔
اب وزیر اعظم کو کون بتائے کہ، دابھولکر، پنسارے، کلبرگی ، گوری لنکیش وغیرہ جیسی ملک کی مقتدر سیکولر شخصیات کو موت کے گھاٹ اتاردئے جانے کو کون سا نام دیا جائے گا؟ کرنل پروہت، پرگیا سادھوی، اسیما نند وغیرہ کون سے اہنسا کے پاٹھ کا درس دینے کے لئے گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں قید تھے اور انھیں رہا کرتے ہوئے گزشتہ 20 مارچ کو این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج جگدیپ سنگھ نے اپنے 160 صفحات کے فیصلے میں ان ملزموں کو ثبوت کی عدم موجودگی میں رہائی کا حکم دیتے ہوئے ملک کی جانچ ایجینسیوں کی کارکردگی پر جس طرح سوالیہ نشان لگائے ہیں ، وہ ملک کے آئین اور جمہوریت کی پامالی کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو ملک کا سزا دلانے والا ادارہ ہی انھیں سزا سے بچانے میں ملوث ہے ۔ ملک کے لئے اس سے بڑا المیہ کیاہو سکتا ہے ۔اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ان لوگوں کو موجودہ حکومت میں اقبال جرم (اسیما نند ) کے باوجود رہائی ہو گئی ہے ۔ دراصل یہ ساری باتیں حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنی خفت کو مٹانے کے لئے صرف جملے بازی اور جھوٹے دعوے اور وعدے سے ملک کے عوام کو گمراہ کر رہی ہے ۔ لیکن اب عوام ان کے فریب کوبخوبی سمجھ چکی ہے اور اس کا اندازہ مودی حکومت کو بھی ہو چکا ہے ، کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ان کے جھوٹ ، فریب ، دھوکہ، بدعنوانی ، فرقہ واریت ، عدم رواداری کے بھنور میں ان کشتی بُری طرح پھنس چکی ہے ، جس کا نکلنا اب مشکل ہے۔