مودی سرکار کی انتہا پسندی

Indian Muslims

Indian Muslims

تحریر : عبدالرزاق
بھارت کو آزاد ی کا سورج دیکھے ستر برس ہونے کے قریب ہیں اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو وہاں آباد ہیں تب سے آج تک ہر شعبہ زندگی میں ناانصافی کا شکار ہیں۔ تعلیم ،روزگار،ت جارت کے میدان کے علاوہ اعلیٰ انتظامی عہدوں کے حصول میں عدم مساوات بھی مسلمانوں کا مقدر ہے۔کون نہیں جانتا کہ ہندوستان میں موقع بہ موقع مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تشدد کی ہوشربا داستانیں رقم ہوتی رہیں۔کبھی مسلمانوں کو قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا کبھی ان کی عبادت گاہوں کو شہید کر دیا گیا۔الغرض ہندوستان کے قیام سے لے کر اب تک مسلمان ناگفتہ بہ حالات کا ہی شکار رہے۔اگرچہ مسلمانوں کے لیے تعصب،نفرت اور انتہا پسندی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔

بلکہ اس خطہ کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ ہی سے بنیاد پرست ہندو ذہنیت دیگر مذاہب کے افراد کے ساتھ ناروا سلوک میں پیش پیش رہی ہے لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ جب سے مودی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے اور مودی وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن ہوے ہیں ظلم و ستم اور عدم رواداری کے واقعات میں شدت آ گئی ہے اور جنونی ہندووں کی مذموم کاروائیاں نہ صرف ہندوستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں بلکہ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور ہر جانب سے تواتر سے مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان دنوں ہندوستان کی دھرتی پر دیگر مذاہب بالخصوص مسلمان ،سکھ اور عیسائی زیر عتاب ہیں۔ہر جانب جنونی ہندووں کا غلبہ ہے وہ جب چاہیں گھروں میں گھس کر دھرم اور عقیدے کے نام پر قتل عام کا بازار گرم کر دیتے ہیں اور انہوں نے بالخصوس مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔

ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو امن، سلامتی، صلح جوئی ،برداشت، تحمل اور رواداری کے درس سے ہم آہنگ ہے لیکن یہ طبقہ بھی جنونی ہندووں کی دھونس اور دھمکیوں سے محفوط نہیں ہے اور اس ضمن میں ہندوستان کے ان سماجی ،ادبی اور سیکولر لوگوں کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے امن کے حصول کی خاطر سرکار کو ایوارڈ واپس کیے اور پھر سب سے بڑھ کر شاہ رخ خان کے بیان پر اٹھنے والا طوفان اس بات کا غماز ہے کہ جنونی ہندووں کی نظر میں مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔بی جے پی کے رہنما آدتیہ ناتھ نے زہر آلود بیان دیتے ہوے فرمایا کہ شاہ رخ غدار وطن ہیں شاہ رخ کو پاکستان چلے جانا چاہیے ۔شاہ رخ حافظ سعید کی زبان بول رہے ہیں۔

Boycott

Boycott

ہندوستانیوں کو ان کی فلموں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے علاوہ ازیں بی جے پی کے سینیر لیڈر وجے ورگیہ نے بھی اسی قسم کا بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ انقلابی نظریات کے حامل بعض فنکار اور مصنفین سیکولرازم کے نام پر قوم دشمن عناصر کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگرچہ ان دگرگوں حالات میں کانگرس نے عدم رواداری کے مسلہ پر حکمران جماعت بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ادبی،سماجی اور امن پرست لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور جگہ جگہ احتجاج کے سلسلہ کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

اس ضمن میں اہم پیش رفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب کانگرس پارٹی نے قیادت سمیت حکومتی انتہا پسندی کے باعث پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورتحال پر ایک مارچ نکالا اور صدر پرناب مکھر جی کو عدم مساوات کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر ایک یادداشت پیش کی اور ہندوستان کی اس شرمناک صورتحال کو مودی حکومت کی شر انگیزی کا شاخسانہ قرار دیااور یوں کانگرس رہنماوں نے خود کو متحمل،روادار اور بردبار ہونے کا عندیہ دیالیکن اگر ان کے اس طرز عمل کو حقائق کی عینک چڑھا کر دیکھا جائے تو واضح دکھائی دے گا کہ کانگرس کا یہ عمل سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ کانگرس حکومت نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے کسی قسم کے جامع اقدامات ہرگز نہ کیے اور تب بھی جنونی ہندووں کا پر تشدد طرز عمل انہی خطوط پر جاری تھا۔

BJP

BJP

مسلمان وہ منظر کیسے بھول سکتے ہیں جب گجرات میں سفاقیت کا کھیل رچایا گیا اور کانگرس حکومت اپنے عرصہ اقتدار میں ان ظالموں کو سزا دلوانے میں قطعی بے بس دکھائی دی اور حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات بھی دیکھنے سے آنکھیں قاصر رہیں جس سے گمان ہوتا کہ کانگرس فساد برپا کرنے والوں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے میں سنجیدہ ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ کانگرس اور بی جے پی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ کئی دہائیوں سے جاری ناانصافی ،تشدد اور خون خرابہ کے اس جان لیوا ماحول میں جنونی ہندووں کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں اور ان دنوں زیادہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ حکمران بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندووں کا ہے اوراگر دوسری قومیں یہاں رہنا چاہتی ہیں تو وہ ہندو دھرم کی چھتری تلے ہی رہ سکتی ہیں جبکہ اس صورتحال میں مسلمان زیادہ فکر مند ہیں اور خوف و ہراس کا شکار ہیں کیونکہ ہندوستان میں سیکولر ازم کا نعرہ بلند کرنیوا لی سیاسی جماعتیں بھی ہوس اقتدار میں اندرون خانہ ان جنونی ہندووں کی ہم زبان ہیں اور مسلمان تنہائی کا شکار ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی مقامی تنظیمں بھی زیادہ فعال اور متحرک نہیں ہیں اور خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں جبکہ عالمی سطح پر بھی مسلمان نامساعد حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔اکثر اسلامی ملک اندرونی شورشوں اور دہشت گردی کا شکار ہیں اور کچھ اسلامی حکمرانوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لالے پڑے ہوے ہیں اس قسم کی صورتحال میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ رب کریم ان کی زندگی اور ایمان کی حفاظت کرے۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق