ہندوتوا ایک سیاسی تحریک ہے جس کا آغاز ہٹلر کی نازی پارٹی کے ساتھ اور باہمی تعاون سے ہوا۔ دمُودرسوارکر کے پیش کردہ سیاسی نظریہ ہندوتوا میں کئی انتہا پسند ہندو تنظیمیں جن میں RSS، ہندو مہا سبھا ، وشوا ہندو پریشد اور دوسری کئی انتہا پسند جماعتیں شامل ہیں ۔ اور ان جماعتوں کو مجموعی طور سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔ سنگھ پریوار کی جماعتیں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔ BJPکے تمام سیاستدانوں کا تعلق RSSیا سنگھ پریوار کی کسی نہ کسی جماعت سے ہوتا ہے ان کا بنیادی نعرہ ہندو راشٹرا (ہندو مملکت) اور اس کیلئے ہندوتوا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔RSSکا باقاعدہ قیام 1925 جبکہ نازی پارٹی کا قیام 1920 میں ہوا ۔ 1921 میں ہٹلر نازی پارٹی کا سربراہ بنا اور 1933 میں الیکشن جیت کر جرمنی کا حکمران بنا اور اس کے بعد دنیا کی بربادی سب نے دیکھی۔ ہندوستان چونکہ برطانیہ کی غلامی میں تھا اس لیے سنگھ پریوار یعنی RSS ہندوستان سبھا وغیرہ کو آزادی تک انتظار کرنا پڑا اور آزاد ی حاصل کرنے کے صرف چار مہینے بعد RSSکے دہشت گرد نتھو رام گاڈسے اور اسکے ساتھیوں نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔ وقت گزرتا گیا اور بالآخر ایک چائے والے نے RSS کے پلیٹ فارم سے 2002میں بحیثیت چیف منسٹر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل ِ عام کروا کے یہ ثابت کیا کہ یہی وہ شخص ہے جو ہندوستان کا ہٹلر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں نے اس کا پیغام سمجھا اور بھارت کے اندر قتل غارت کا مکمل اختیار دے دیا جو وہ دل کھول کر کررہا ہے اور کوئی اُسے روکنے والا فی الحال نظر نہیں آ رہا ۔
بھارت میں ہندو انتہا پسند حکومت مودی سرکار نے جس منظم انداز میں مسلمانوں ودیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں اختیار کیں،یہ مذموم سلسلہ کرونا وبا جیسی بھیانک صورتحال میں بھی جا ری ہے۔ گذشتہ کئی مہینوں سے مسلمانوں کے پُرامن طبقے کے خلاف مختلف شدت پسند نظریات کے تحت انتہا پسندکاروئیواں عروج پر ہیں۔
بھارتی مسلمانوں پر نریندر مودی کی بربر یت پر چشمِ فلک تو نم ہو سکتی ہے لیکن مسلم امہ کے قائدین کی آنکھوں میں آنسوؤں کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے ذاتی مفادات ان کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں ۔کیا بھارت پر ایک ہزار سال تک حکومت کرنے والی قوم پر ایسا وقت بھی آنا تھا کہ اس کا خون گاؤ ماتا کے خون سے بھی ارزاں ہو جاتا ؟ دہلی کی سڑکوں پر مسلم خون بہانے کے جو دلخراش مناظر دیکھے گئے ترقی یافتہ دور میں اس کا تصور بھی محال ہے۔جمہوریت کا راگ الاپنے والی قوم اپنے ہی ہموطنوں کو جس بے دردی سے ذبح کر رہی ہے وہ انسایت کشی کا ایک ایسا نوحہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
اختلافِ رائے کی کیا یہی سزا ہے کہ اپنے مخالفین کو زندہ در گور کر دیا جائے ؟شہریت بل پر اختلاف کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا جس پر دہلی کی سڑکوں کو لہو سے تر بتر کیا جاتا ۔امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے بھی مسلمانوں کے خلاف ایسا ہی متعصب قانون بنایا تھا لیکن وہاں پر مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ ایسا سفاکانہ سلوک روا نہیں رکھا گیا تھا۔نائین الیون کے تناظر اور خلیجی جنگ میں امریکی مداخلت کے خلاف سب سے بڑے جلوس یورپ اور امریکہ میں نکلے تھے لیکن وہاں کی حکومتوں نے کسی قسم کا تشدد یا خون بہانے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ عوام کو پر امن احتجاج کا حق عطا کر کے ان کے جان و مال کی حفاظت کی تھی۔اختلاف کو برداشت کرنا ہی جمہوریت کی حقیقی روح ہے۔
یہ سچ ہے کہ برِ صغیر اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر غیرت کے نام پر قتل کردینا معمول کے وقعات ہیں حالانکہ یورپ میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کا تصور وہم و گمان سے ماورا ہے لیکن اس کے باوجود انسانی حرمت تو ہر جگہ مسلمہ ہے۔انسانی خون کی توقیر کسی بھی مہذب معاشرے کا طرہِ امتیاز ہو تا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یورپ میں احتجاج پر انسانی جان کو مکرم سمجھا جائے لیکن برِ صغیر میں احتجاج پر اسے تہہ تیغ کرنا باعثِ توقیر سمجھا جا تا ہے ۔احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار نریندر مودی احتجاج کرنے والوں کو موت کا تحفہ دے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ریاست کی رٹ انسانی جان سے زیادہ اہم ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کی آڑ میں مودی سرکار فاشسٹ ہندوتوا نظریہ پر عمل پیرا ہے۔ ہندتوا نظریہ کے تحت بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ متنازعہ علاقے میں جغرافیائی تبدیلیاں کر رہی ہے جو کہ جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے چکی ہے۔
2014سے جب سے بی جے پی نریند مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت پر قابض ہو ئی ہے ہندوتوا کا بول بالا ہے ۔اب تو اکثر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹ کی بھر مار ہو گئی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’قسم ہےتمہیں ہندو ہونے کی اس پوسٹ کو اتنا شیئر کرو کہ ہر ہندو تک پہنچ جائے ‘‘۔ کچھ پوسٹ میں تواس سے بھی بڑھ کر لکھ دیتے ہیں، مثلاً’’ قسم ہے بھارت ماتا کی، قسم ہے تمہاری ماں کی، قسم ہے شری رام کی‘ ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے پوسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں کس قدر زہر گھولا جا رہا ہےاورسیکولر ہندوؤں کو نام نہاد ہندوتوا کی طرف گامزن کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مذہبی آزادی سے متعلق امریکا کے عالمی کمیشن نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں شہریت کے ترمیمی قانون کو بی جے پی کے بڑھتے ہوئے ہندوتوا نظریے کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوتوا نظریہ بھارت کو ایک ہندو ریاست کے طور پر دیکھتا ہے، جس میں ہندوازم کی تعریف میں بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کے ماننے والے شامل ہیں، تاہم اسلام کو ایک اجنبی اور حملہ اور مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہندوتوا کا سیاسی بیانیہ مسلمانوں کی بھارتی شہریت کو چیلنج کرتا ہے اور انہیں مستقل طور پر ایک علاحدہ اقلیت قرار دیتا ہے۔
رپورٹ میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اْتر پردیش کے انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے 2005ء کے ایک بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں انہوں نے بھارت میں دیگر مذاہب کے خاتمے اور اس صدی کو ہندوتوا کی صدی کہا تھا۔ بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمان نے 2018ء میں بیان دیا تھا کہ بھارت 2024ء تک خالص ہندو قوم بن چکا ہو گا اور اْن سب مسلمانوں کو بھارت سے جانا ہو گا جو ہندو کلچر میں ضم نہیں ہو سکیں گے۔ امریکی کمیشن کی رپورٹ میں حالیہ پوری صورت حال کو مسلمانوں کے لیے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔