نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی حکومت نے کشمیر میں سیاسی بے چینی سے نمٹنے کے لیے مرکزی وزرا کی طرف سے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن کیا اس سےکوئی فرق پڑے گا؟
فیصلے کے مطابق مودی حکومت اپنے چھتیس سینیئر وزرا کو جموں و کشمیر روانہ کرے گی جو پچاس سے زائد مقامات کا دورہ کرکے عوام سے خطاب کریں گے۔ خیال ہے کہ اس مہم کی ابتدا آئندہ چند روز میں ہوجائے گی۔
یہ وزرا جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں پنچائتی سطح پر لوگوں سے رابطہ کریں گے اور انہیں حکومتی موقف پر قائل کریں گے۔
بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ وہ کشمیر کو قومی دھارے میں شامل کرکے خطے کو ترقی دینا چاہتی ہے۔
لیکن اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ بیشتر کرہنماؤں کو گرفتار کرلیا گيا تھا اور کرفیو جیسی سخت پابندیاں عائد کر دی گئي تھیں جن میں سے اب بھی کئی پابندیاں نافذ ہیں۔
وادی کشمیر میں حکومت کے اس قدم کے خلاف عام طور پر لوگوں میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے اور جموں خطے میں بھی اس کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ترجمان سدیش برمانےدعوی کیا کہ چونکہ اب کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں اس لیے وزارا اپنے اپنے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے وہاں کا دورہ کریں گے۔
ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا، ” اب صورتحال بہتر ہورہی ہے، ترقی بھی اہم ہے اور حکومت کی توجہ اسی پر ہوگی۔”
لیکن کشمیر میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما یوسف تاریگامی، جو حال ہی میں قید سے رہا ہوئے ہیں، کا کہنا ہے کہ حکومت کے یہ تمام دعوے جھوٹے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ حکومت نے کشمیر میں ترقی کاوعدہ کر کے خصوصی درجہ ختم کیا تھا اور اب ترقی تو دور کی بات، عالم یہ ہے کہ کشمیری بجلی، پانی اور گیس جیسی ضروری اشیا کے لیے ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں حالات پہلے سے بدتر ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے موقع پر چھتیس مرکزی وزار کو کشمیر بھیجنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس لیے تاکہ وہ بی جے پی کی مہم چلا سکیں؟ یہ وقت ہے کہ اس بےحس اور غیر ذمہ دار حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کا جس کے لیے تمام جمہوریت پسند طاقتوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کو ایک ہونا چاہییے۔”