مودی تاریخ پڑھ لو

Narendra Modi

Narendra Modi

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

نسل انسانی کی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی چلی جاتی ہے کہ جب بھی قدرت کسی غیر معمولی انسان کو بے پناہ خوبیوں کے ساتھ کر ہ ارض پر اتارتی ہے تو وہ اپنے کردار افکار طرزِ عمل سے فرسودہ خیالات جہالت پر مبنی اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا ہے یہی حال ہندوستان کی سر زمین پر مہا تمہ بدھ کے آنے سے ہوا جو روحانی صلاحیتوں سے مالا مال تھا جس کی تعلیمات میں گوشت خوری سے اجتناب بھی تھا ‘ مہاتما بدھ کے کردار ‘ شخصیت اور تعلیمات کا جادو سرچڑھ کر بولا بعد میںاشوکا کی حکمرانی میں مہاتما بدھ کی تعلیمات کو حکومتی سرپرستی حاصل ہوئی تو بدھ مت کی تعلیمات ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئیں ‘ صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی گئیں ہندو مذہب کی ایک نہ چلی اور پھر چار صدیوں بعد عیار برہمن نے چالاکی عیاری سے اپنی تاریخ میں نام نہاد کردار تراشے اپنی دیو مالا کو دل چسپ رنگین بنانے کے بعدعوام کو پھر ویدوں کی طرف مائل کیا اِن افسانوی کرداروں کے سامنے بدھ مت کی عمارت لرزنے لگی یہاں تک کہ بدھ مت ہندوستان میں سکڑتے سکڑتے چند جگہوں پر ہی برائے نام رہ گیا ‘ ایسے ایسے ہیروز کردار تراشے گئے جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا ‘ دیو مالائی داستانیں گھڑی گئیں ان میں خوب مرچ مصالحے لگائے گئے گردش ایام کے بعد یہاں پر سکندر اعظم آیا تو اُس کے ساتھ بت تراش بھی آگئے ‘ انہوں نے گو تم بدھ کے بت تراشے پھر ان بتوں کے لیے گو بھی مندر بنائے گئے۔

بدھ کے بتوں اور مندروں کی عوام میں پذیرائی دیکھ کر عیار برہمن کی آنکھیں کھل گئیں پھر انہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت ویدوں کے نام گھڑے ‘ پھردیوتا تخلیق کئے گئے ان دیوتائوں کے نام گھڑے گئے جب فرضی دیوتائوں کے نام آگئے تو اب اُن دیوتائوں کے بت تراش کر انہیں مہاتمہ بدھ کے مقابلے پر مندروں میں رکھ کر تزئین و آرائش کر کے ان بتوں کی پو جا شروع کر دی گئی ‘ رامائن اور مہابھارت کی فرضی دل چسپ کہانیاں تراشی گئیں ‘ رگھوپتی راجارام چندر اور کرشن مہاراج و شنو دیوتا کے اوتار مشہور کئے گئے ‘ مہادیو برھما دیوتا کی لوک کہانیاں بتائی گئیں ‘ بھولے ناتھ کالی ماتا شیو ماں فرضی دیوتا بنتے چلے گئے پہلے تو یہ تعداد سینکڑوں میں تھی پھر ہزارو ںلاکھوں اور کروڑوں میں بڑھتی چلی گئیں اِن دیوتائوں کے بت اور مندر بنتے چلے گئے ایسے دیوتا جن کا حقیقت سے کسی بھی قسم کا تعلق نہیں تھا صرف برہمنوں نے اپنی جنسی ہو س اور لوٹ مار کے لیے غلام کو مصروف رکھنے کے لیے یہ دیوتا اور داستانیں تراشیں ‘ بت پرستی وہم اس قدر بڑھائی کہ جانوروں تک کو نہ چھوڑا ‘ گائے ناگ کو بھی دیوتائوں کا روپ دے دیا گیا بت پرستی نسل در نسل جینز ہڈیوں میں سرایت کر تی چلی گئیں۔

وہم توہم پرستی اِس حد تک بڑھی کہ ہندو ہر طاقت ور چمک دار چیز کی پرستش کر نے لگے ہر چیز کی پوجا کر تے کر تے ہندو خوف کمزوری کے جیتے جاگتے کردار بنتے چلے گئے ‘ خو ف کمزوری فرمانبرداری دوسروں کے سامنے جھکنا ہندئو ںکی سرشت بنتا چلا گیا ‘ گوشت خوری سے دوری جسمانی طور پر بھی کمزور کر دیا پھر وہ دور بھی شروع ہو گیا کہ دنیا کے جس طالع آزما کا دل کر تا وہ لشکر لے کر ہندوستان کا رخ کر تا ‘ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر مال و دولت لوٹ کر چلا جاتا ‘ سکندر اعظم سے لے کر مغل بابر تک ہندوئوں کی طویل داستان عزیمت لیے ہے پھر پرتھوی راج ان کی تاریخ کا واحد پیرو سامنے آتا ہے جن کی شجاعت بہادری کے یہ آج بھی ترانے گاتے ہیں پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب شہنشاہ اجمیر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی دعا کے صدقے شہاب الدین غوری قہر بن کرہندوستان کی سر زمین پر ٹوٹ پڑتا ہے ‘ راجپوتوں کو خاک چٹا کر پر تھوی راج کو قید کر کے غلام بنا کر لے جاتا ہے۔

صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی گئیں ابراہیم لو دھی ہو یا بابر بہادر شاہ ہو یا احمد شاہ ابدالی یا امیر تیمور اور پھر سلطان محمود غزنوی جس کا بھی دل کیا وہ اٹھا ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر قتل و غارت لوٹ مار کر کے چلا گیا ‘ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ کامیاب حملے کئے ‘ ہندوئوں کی بزدلی کا عالم یہ تھا کہ ایک با ر سلطان محمود غزنوی چند سپاہیوں کے ساتھ آیا اپنا ہدف کامیابی سے فتح کر کے چلا گیا راجہ داہر کو جب طاقت کا خمار چڑھا تو سترہ سالہ مجاہد محمد بن قاسم شیر کی طرح آیا اور راجہ داہر کو گیڈر کی موت دے کر فاتح بنا ‘ آپ ہزاروں سال کی ہندوئوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی اِس عیار چالاک بزدل قوم کو طاقت اور اقتدار کا نشہ چڑھا کوئی مسلمان مجاہد آسمانی قہر بن کر اٹھا اُسے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا پھر کون بھو ل سکتا ہے اکبر اعظم اورنگ زیب اور باقی مغل بادشاہوں کو حق کے سامنے جب بھی کسی ہندو راجہ نے سر اٹھانے کی کو شش کی اُس کا سر کچل کر رکھ دیا گیا ‘ قافلہ شب و روز گزرتا چلا گیا ہر دور میں ہندو قوم ذلت کی خاک چاٹتی رہی ‘ جدید دور آیا تلوار کی جگہ بندوق نے لی تو بزدل ہندئوں نے پھر پر نکالنے شروع کئے کیونکہ آپ تاریخ کا ورق ورق کھنگال لیں جب تک تلوار رہی ایمان کے نور سے بھرے مسلمان مجاہدوں کی تلوار جب بھی لہرائی ہندو قوم شکست کی سیاہی ماتھوں پر ملتی نظر آئی آپ ہندوستان کی ہزاروں سال کی تاریخ پڑھ لیں ہندوئوں کے مقدر میں ہمیشہ شکست اور غلامی ہی آئی کیونکہ فتح کے لیے جرات حوصلے کی ضرورت ہے وہ ہندئوں کے میٹریل میں ہے ہی نہیں کسی اور قوم یا ملک کو فتح کر نا تو دور کی بات رہی اپنی سر زمین کی حفاظت بھی نہ کر پایا’ دوسری طرف مسلمان قوم جن سے ہندوئوں کا جب بھی واسطہ پڑا مسلمانوں کے مقدر میں فتح اور ہندوئوں کے مقدر میں شکست ہی آئی ‘ ہندو قوم ماضی سے سبق لینے کی بجائے غلط فہمی کا شکار ہو گئی ہے آج کے دور میںپھر عیار بزدل ہندو کو اپنی طاقت کا نشہ چڑھ رہا ہے موجودہ ہندوستان کا حکمران نریندر مودی اِس کی مثال ہے جو ماضی سے سبق لینے کی بجائے پاکستان کو سبق سکھانے شکست دینے کے خواب دیکھ رہا ہے بزدل مکار مو دی کو تاریخ سے سبق لینا چاہیے کہ جب بھی ہندو قوم نے سر اٹھا نے کی کوشش کی کسی مر د مجاہد نے اُس کا سر کچل دیا۔

مودی کو آجکل طاقت کا بخار چڑھا ہوا ہے وہ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کر لے یا کسی سے سن لے اور پھر مسلمانوں کی تاریخ کا بھی ۔مسلمانوں کی تاریخ میں مجاہدوں کی جو طویل فہرست ہے خالد بن ولید سے موجودہ ونگ کمانڈر حسن صدیقی اور نعمان علی خان تک ایک سے بڑھ کر ایک باکمال انسان جس نے خود کو تاریخ کے اوراق میںہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر لیا ۔یہ وہ انمول فاتح تھے جن کے قدموں سے اڑنے والی خاک کے برابر بھی ہندوئوں کی تاریخ میں کوئی فاتح نہیں ہے ‘ ہندو جو ساری تاریخ میںاپنی حفاظت نہ کر سکے مسلمان فاتح جزیرہ عرب سے نکل کر کس طرح کر ہ ارض پر پھیل گئے یہاں تک کہ آدھی دنیا سے زیادہ زمین پر مسلمانوں کا ہی جھنڈا لہراتا رہا ‘ پاگل مودی جس کو طاقت کا نشہ چڑھا ہوا ہے وہ تاریخ سے واقف نہیں ہے لیکن شعور آگہی بصیرت فہم یہ تو عقل مند انسانوں کو دولت نصیب ہو ئی ہے ریلوے اسٹیشن پر چائے بنانے والا علم کے نور سے کیسے واقف ہو سکتا ہے۔

مودی کو یہ جان لینا چاہیے کہ جنگوں میں وہی فاتح ہوئے ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میںآتے ہیں یہ جذبہ کر ہ ارض پر صرف اور صرف مسلمانوں کو نصیب ہواہے کیونکہ پاکستان میں بائیس کروڑ مسلمانوں میں شہادت کی آرزو کی چنگاری موجود ہے جو کسی بھی وقت آگ کا بھانبھر بن کر بزدل ہندو تہذیب کو بھسم کر سکتی ہے ‘ ہندو قوم شراب کے بغیر میدا ن جنگ کا رخ نہیں کر سکتی جبکہ مسلمان وہ قوم ہے جس نے سابق سویت یونین اور امریکہ کو افغانستان میں شکست دی جب دوسپر پاور شکست کی خاک چاٹ رہے ہیں تم کسی کھیت کی مولی ہو کیونکہ مسلمانوں کی منزل جیت ہے اور جنت کا فلسفہ مسلمانوں میں یہ ہے کہ دشمن سے مقابلہ کی آرزو مت کرا للہ سے عافیت مانگو لیکن اگر مقابلہ کی نوبت آجائے اور تم پر جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر جم جائو ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی