تحریر: رانا ظفر اقبال ظفر بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسقبل قریب میں انڈیا پاکستان کے ساتھ دریائوں کے پانی کی تقسیم کے حوالے کوئی نہ کوئی شرارت کرنے والا ہے پانی کی تقسیم کا معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پایا تھا جس کے تحت کشمیر سے گزرنے والے ،تین دریائوں ،سندھ،چناب،اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا جو ان دریائوں کا اسی فیصد پانی استعمال کرتا ہے امن معاہدے کے تحت پنجاب میں بہنے والے، دریائے ،بیاس، راوی اور ستلج کے پانیوں پر انڈیا کا کنٹرول ہے جبکہ دریائے سندھ ،چناب اور جہلم پر پاکستان کا کنٹرول ہے ۔دریائے سندھ انڈیا سے نکلتا ہے لیکن انڈیا کو اسکا صرف تیس فیصد حصہ استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔مگر اب ایسے لگ رہا ہے کہ مودی پانی کو روکنے کی کوشش ضرور کرے گا چاہے جگ ہسائی ہی کیوں نہ ہو۔
جس طرح آجتک سرجیکل آپریشن پر مودی حکومت قائم ہیاسی طرح آ بی جارحیت بھی کرنے کا پکا خیال رکھتی ہے۔اور اس سلسلہ میں بھارت نے تلبل منصوبے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو پاکستان کے اعتراضات کے بعد 2007میں روک دیا گیا تھا بھارتی اخبارات کے مطابق انڈیا نے اس مسلہ پر سخت موقف اپنانا شروع کر دیا ہے جکہ اڑی حملہ جسمیں چار جنگجوئوں نے بھارتی فوجی کیمپ پر حملہ کر اٹھاری بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کر دیا تھا اور متعدد زخمی ہو گئے تھے اس کے بعد سخت گیر عناصر دریائوں کے پانیوں کا رخ موڑنے پر بھی زور دے رہے ہیں ۔اسی سلسلہ میں گذشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سخت زبان استعمال کرتے ہوئے ریاست پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے کاشت کاروں کو وافر مقدار میں پانی فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی دریائے سندھ میں بہنے والے پانی پر ہمارا حق ہے۔
Indus Water Treaty
جسے صرف انڈیا کے کسان استعمال کریں گے اور اس سلسلہ میں ایک ٹاسک فورس بھی قائم کر دی جو اس پہلو پر جائزہ لئے گی کہ سندھ ،طاس معاہدے کے تحت جو پانی پاکستان جاتا ہے اسے کس طرح اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے ۔وہاں انہوں نے سابقہ بھارتی حکومتوں پر بھی چوٹ کی کہ انڈیا کا پانی پاکستان جاتا ہے اور دلی میں حکومتیں آتی رہیں ،سوتی رہیں جبکہ ہمارے کاشتکار پانی کے لیے روتے رہے مگر کسی نے توجہ نہ دی ۔۔شاید مودی میاں بھول چکے ہیں یا تاریخ کا مطالعہ بھی نہیں ہے سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی سربراہی میں طے پایا تھا انڈیا اور پاکستان کے درمیان ماضی میں ہونے والی جنگوں اور لڑائیوں میں یہ معاہدہ قائم رہا اور کبھی اس پر سوال نہیں اٹھایا گیا مودی کی حکومت میں حالیہ کشیدگی ہوتے ہی نریندر مودی نے پہلی بار اس معاہدے پر نظر ثانی کی بات کر کے آبی جنگ چھیڑنے کی کوشش کی ہے ۔ کیا جنوبی ایشاء میں ہونے والے حالیہ تنازعے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آئندہ جنگیں پانی کے حصول میں لڑی جائیں گی ؟ کیا ایسی پیش گوئیاں درست ثابت ہونگی جس کے نہ صرف خطے پر بلکہ عالمی امن پر بھی دور رس نتائج پڑیں گے؟ بعض لوگوںکا خیال ہے کہ مودی کی طرف سے پانی بطور سفارتی اسلحہ استعمال کرنے کی ڈرامائی مثال ہے ایٹمی اسلحہ سے لیس دونوں ملکوں کے تعلقات تو ویسے ہی خراب رہتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں انتہائی خراب ہو چکے ہیں ؟۔
اڑی حملہ میں بھارت کے اٹھارہ فوجی مارے جانے اور کشمیر پر عالمی توجہ پڑنے کی وجہ سے نریند مودی بوکھلا کر پاگل ہو کر نہ صرف سخت زبان استعمال کر رہا ہے بلکہ اقوام عالم کی توجہ کشمیر سے ہٹانے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتوں پر بھی اتر آیا ہے جسے جنگی جنون بھی کہا جا سکتا ہے ۔مودی کا خیال ہے کہ پاکستان کو پریشان کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی بجائے ڈیموں کی دیوار کھڑی کر دی جائے تو وہ بھی کم خطرناک نہ ہو گی مگر انکے اپنے ملک میں ہونے والا تجربہ ناکام ہو چکا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے ۔تیرہ ستمبر کو انڈیا ٹیکنالوجی کے گڑھ بنگلور میں تجربہ کیا گیاجسمیں دو لوگ مارے گئے سینکڑوں زخمی ہوئے اس کی وجہ دریائے کاویری رہی ۔کیونکہ دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم پر کرناٹک اور تامل ناڈوں کی ریاستوں کے درمیان جھگڑا تھا اور اس جھگڑے کی چنگاری انڈین سپریم کورٹ کا حکم نامہ بنی جسمیں کہا گیا کہ کرناٹک اپنی جنوبی ہمسائیہ ریاست کو پانی فراہم کرنے کے لیے ڈیم کھول مدے سندھ کی طرح کاویری کے پانی کی تقسیم پر بھی ایک عرصے سے جھگڑا جاری ہے جس میں حالیہ دنوں میں شدت آ چکی ہے ۔کیونکہ جنوبی ریاست کے دوسرے علاقوں میں اس سال اچھی بارشیں ہوئیں تا ہم کاویری کا علاقہ بڑی حد تک بارشوں سے محروم رہا جس کے بعد کرناٹک نے سخت قدم اٹھایا اور اپنے ڈیموں کا پانی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
Supreme Court of India
اس کا دعوی تھا کہ اگر پانی تام ناڈوں کو دے دیا تو اس کے شہری پیاسے رہ جائیں گے اور فصلیں اجڑ جائیں گی تا ہم سپریم کورٹ انڈیا کے حکم کے بعد ہنگامے شروع ہو چکے ہیں۔ان حالات میں گو بین القوامی آبی تنازعے بڑھتے جا رہے ہیں جنہیں حل کرنا آسان نہ ہو گا وہ بھی اس دور میں جب ہر جگہ پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے ۔دنیا میں دوسری جگہوں پر ملکوں کے درمیان پانی پر جھگڑے جاری ہیں،مصر، اتھوپیا اور سوڈان دریائے نیلم کے پانی پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ترکی اور عراق دریائے دجلہ کے پانیوں پر دست و گریبان ہیں تو اسرائیل اور اسکے ہمسائے دریائے اردن کے پانی کی تقسیم پر رسہ کشی کر رہے ہیں ،۔ان حالات میں نریندر مودی ایک کامیاب ترین بین القوامی معاہدے کو خطرے میں ڈال کر دونوں ملکوں کو خطرناک تنازعے کی طرف لے جا رہا ہے جو کسی بھی صورت دونوں ایٹمی ممالک کے حق میں نہیں ہیں خصوصا انڈیا کو اس سے بہت سے نقصانات ہو سکتے ہیں بلکہ انڈیا ایسی مصیبت میں پھنس جائے گا جس میں موت ہی موت ہو گی۔ویسے بھی کرناٹک اور تامل ناڈو تو اسکی اپنی ریاستیں تھی اور یہ مسلہ دو ملکوں کا ہے۔
انڈین مبصر پی جی رسول کہتے ہیںکہ آبی جارحیت کی گئی اور پاکستان جانے والے پانیوں کو روکا گیا تو کشمیر میں ہر لمحہ سیلاب آتے رہیں گے اور اگر چین نے یہی حربہ استعمال کرتے ہوئے تبت سے نکلنے والے دریائے برہم پترا کا رخ موڑا تو بھارت کی شمال ،مشرق،کی ریاستیں برباد ہو جائیں گی۔کیونکہ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہفتوں میں دریائے برہم پترا کا رخ موڑ سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو پنجاب، ہریانہ، دہلی ،اور دیگر ریاستوں میں موت،ناچے گی۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے لیے آبی جارحیت کا فیصلہ اتنا بھی آسان نہ ہوگا اگر اسے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عوام کو دی جانے والی ،،گولی،،کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا مگر کسی پاگل سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے اور مودی تو مسلمان دشمنی میں پاگل پن کی حدوں کو چھو چکا ہے۔جسکا علاج کرنے کے لیے بین القوامی سطح پر آواز بلند کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے کوئی بھی تاخیر پاکستان کا نقصان کر سکتی ہے۔