تحریر : عبدالرزاق بھارتی وزیر اعظم مودی کی پھرتیاں ان دنوں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔پانچ ملکوں کے دورہ کے چوتھے مرحلہ میں وہ امریکہ پہنچ چکے ہیں جہاں وہ امریکی صدر باراک اوبامہ سے ملاقات کرنے کے علاوہ کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔ تا دم تحریر وہ امریکی صدر باراک اوبامہ سے ملاقات کر چکے ہیں اور اپنے مذموم ایجنڈے کی مذموم کوششیں تیزی سے جاری رکھے ہوے ہیں۔
پاکستان کے لیے تشویشناک بات یہ ہے کہ مودی نیو کلیائی سپلائر گروپ(این ایس جی ) میں شمولیت کے لیے امریکی تھنک ٹینک کے ارکان سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں اور سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اس ضمن میں انہیں امریکی حمایت حاصل ہو جائے ۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے علاوہ مودی بھارت امریکہ دفاعی تعاون کو مذید وسعت دینے کے لیے بھی ہاتھ پاوں مار رہے ہیں جس میں ان کی کامیابی کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
مودی امریکی دورے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں کہ انہیں امریکی آشیر باد حاصل ہو جائے اور بھارت نیوکلیائی گروپ کا ممبر بن جائے اس کے علاوہ سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے بھی اس کی راہ سیدھی ہو جائے ۔مودی بخوبی سمجھتا ہے کہ اس مقصدکے حصول کے لیے اگر اس نے امریکی حمایت حاصل کر لی تو اسے مطلوبہ منزل حاصل کرنے میں آسانی ہو جائے گی اور اس کی منزل کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی ۔مودی کے حالیہ دورے کا مقصد کھل کر سامنے آ چکا ہے جس سے پاکستان کو یقینی طور پر تشویش ہونی چاہیے کیونکہ اگر مودی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا تو خطہ میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کی کوشش کرے گا جو پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ ۔قدرت نے بھی ان دنوں مودی کی رسی دراز کر رکھی ہے ۔ میاں صاحب بستر علالت پر ہیں اور مودی ملکوں ملکوں اپنی عیاری اور مکاری کا کھیل کھل کر کھیلنے میں مگن ہیں۔
Nuclear Suppliers Group
مجھے یہ لکھتے ہوے دلی رنج ہو رہا ہے لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے کہ بھارت سفارتی سطح پر پاکستان کو مات دے چکا ہے اور اب تو یہاں تک خبر گرم ہے کہ بھارت کو عنقریب نیوکلیائی سپلائر گروپ کی رکنیت حاصل ہونے کی نوید ملنے کو ہے ۔ سوئٹزر لینڈ کے صدر جان سنائیڈر عمان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اس بات کی امید دلائی ہے کہ سوئیٹزرلینڈ اس ماہ ہونے والی ایلیٹ گروپ کی میٹنگ میں بھارت کے معاملہ کی حمایت کرے گااور یہ صورتحال بلاشبہ بھارت کے لیے سفارتی میدان میں بہت بڑی چھلانگ ہے جبکہ منجھے ہوے تجزیہ کار بھی اسے بھارت کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
مودی نے اپنے حالیہ ایک بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں بھارت کی عارضی رکنیت کے حصول میں بھی بھرپور مدد کریں گے ۔ سچ تو یہ ہے کہ نیوکلیا ئی گروپ کی رکنیت اور سلامتی کونسل کی رکنیت معمولی بات نہیں ہے جسے پاکستان نظرانداز کر دے ۔ یہ دونوں خبریں پاکستان کے لیے باعث تشویش ہیں اس سے خطہ میں عدم توازن کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں ۔اگر مودی اپنی چالاکی اور مکاری کا کھیل یونہی رچاتا رہا اور پاکستان کو ہر عالمی فورم پر اسی طرح پیچھے دھکیلتا رہا تو آنے والے دنوں میں عالمی بساط پر پاکستان کی اہمیت اور وقار کیا ہو گا۔
اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔پاکستانی عوام اور سیاست دانوں کو نہایت باریک بینی سے سوچنا ہو گا کہ بھارت اپنے اقتصادی ایجنڈے کو لے کر بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن ہم اپنی حکومتوں کو کسی نہ کسی ایسے شکنجہ میں جکڑ دیتے ہیں جس سے ملکی ترقی کا پہیہ جامد ہو جاتا ہے ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں میمو گیٹ ایک ایسا سکینڈل تھا جسے میڈیا نے اتنا رگڑا لگایا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی ۔پیپلز پارٹی حکومت کی نظر عوامی ایجنڈے سے ہٹ گئی اور قیادت اپنے دفاع کی کوششوں میں مصروف ہو گئی۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا اور نتیجہ کیا نکلا صفر جمع صفر ۔ اور اب نواز شریف کی حکومت کے لیے بھی پانامہ لیکس کی صورت ایک ایسا کھڈا کھود دیا گیا ہے جو نواز شریف کا کچھ بگاڑے نہ بگاڑے ملکی ترقی کے عمل کو ضرور سست کر دے گا۔
نواز حکومت کی تمام تر توانائی اس چیلنج سے نبردآزما ہونے میں ہی صرف ہو جائے گی اور وہ عوام کی خدمت خاک کر پائے گی ۔ حکومت کے لیے اس ضمن میں سب سے مضبوط حریف عمران خان ہیں جو الیکشن 2013 میں ہونے والی دھاندلی کے الزام کو لے کر ایک طویل ترین دھرنا بھگتا چکے ہیں اور اب رمضان کے بعد پاناما پیپرز کے معاملہ پر بھی گرینڈ تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔لکھ لیجیے پاناما پیپرز کا نتیجہ بھی ویسا ہی برآمد ہو گا جیسا میمو گیٹ سکینڈل کا تھا۔خان صاحب کے احتجاج پر کئی دنوں تک بھرپو رمیڈیا کوریج ہو گی۔ شاہراہوں اور سڑکوں کی بندش سے کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو گا۔
Imran Khan
کاروبار زندگی مفلوج ہو جائے گا لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ ساری مشق رائیگاں جائے گی ۔نواز حکومت کو ایک اور بہانہ میسر آ جائے گا کہ وہ تو عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے شبانہ روز محنت کر رہے تھے لیکن عمران خان کے رخنہ ڈالنے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے ۔نہ جانے سیاست دان اپنی سیاست کی دکان سجاتے ہوے یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت پاکستانی سیاست دانوں کی باہم جدو جدل سے فائدہ اٹھا کر عالمی سطح پر نہ صرف اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ پاکستان کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔
پاکستانی سیاست دانوں کو عہد کرنا ہو گا کہ وہ خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہوں اپنے سیاسی ایجنڈہ کی تکمیل میں اس بات کا وہ خاص خیال رکھیں گے کہ وہ کوئی ایسا عمل نہیں کریں گے کہ جس سے ملکی ترقی کو زنگ لگنے کا خدشہ ہو اور روائتی حریف بھارت اس سے فائدہ اٹھائے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ پاناما پیپرز پر مذید ہنگامہ برپا ہونے سے پہلے کوئی مناسب فورم تشکیل دے کر اس مسلہ سے جان چھڑائے اور ملک کو درپیش مسائل کے انبار کی جانب بھرپور توجہ دے۔
دوسری جانب عمران خان کو بھی کسی بڑے احتجاج کی کال دینے سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ ان کے اس عمل سے نواز فیملی کا تو شاید کچھ نہ بگڑے لیکن ملکی ترقی کی رفتار مدہم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔عمران خان صاحب کو احتجاج کا میدان سجانے کی بجائے خیبر پختونخواہ کی ترقی و خوشحالی کی جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ احتجاج کی سیاست کبھی بھی خان صاحب کا رخ مسند اقتدار کی جانب نہیں موڑ سکتی ۔ وطن عزیز کا جو حصہ تحریک انصاف کے ہاتھ آیا ہے اس میں عوام کو کوئی واضح تبدیلی نظر آئی تو ہی وہ 2018 کے انتخابات میں سرخرو ہو سکتے ہیں بصورت دیگر احتجاج کے چکروں میں وہ خیبر پختونخواہ سے بھی آوٹ ہو سکتے ہیں۔