‘مودی اور ان کی پارٹی المناک حد تک آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں’

Narendra Modi

Narendra Modi

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) ایک معروف امریکی تھنک ٹینک نے جمہوریت اور آزادی سے متعلق بھارت کا درجہ کم کرتے ہوئے اسے، “آزادی سے جزوی طور پر آزاد” ملک قرار دیا ہے۔

امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے ‘فریڈم ہاؤس’ نے نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے “جزوی طور پر آزد” ملک کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ تقریبا 25 برسوں میں پہلی بار بھارت کی درجہ بندی میں یہ تنزلی دیکھی گئی ہے۔

واشنگٹن میں واقع اس ادارے نے “فریڈم ان دی ورلڈ” عنوان سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلم شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی وجوہات کے سبب رواں برس کی درجہ بندی میں بھارت کی پوزیشن کافی نیچی آگئی ہے۔

رپورٹ میں، “متعدد برسوں کے ایسے طریقہ کار کا حوالہ دیا گيا ہے جس کے تحت ہندو قوم پرست حکومت اور اس کے اتحادی بڑھتے ہوئی پر تشدد کارروائیوں اور تفریق پر مبنی سلوک کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔”

اس رپورٹ میں گزشتہ برس دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات، حکومت کے ناقدین کے خلاف بغاوت کے مقدمات اور کورونا وائرس کے سد باب کے لیے مودی حکومت نے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا اس دوران مہاجر مزدوروں پر گزرنے والے آلام و مصائب کا بھی ذکر ہے۔

دہلی کا پرہجوم پرانے بازار ہر آنے والے کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کتابیں،عروسی ملبوسات، مصالحہ جات اور ہر قسم کی اشیاء ملتی ہیں۔ کسانوں کے حالیہ احتجاج کے بعد لوگوں کے رش میں کمی دیکھی گئی ہے۔

فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق آزادی کے مراتب کی مناسبت سے جس ملک میں سب سے زیادہ آزادی ہو اس کے لیے 100 نمبر مقرر ہیں۔ اس طرح بھارت کو اس بار 67 نمبر ملے جبکہ اس سے قبل تک اس کے 71 نمبر تھے۔ آزادی کی رینکنگ میں 211 ملکوں کی فہرست میں بھارت پہلے 83 نمبر پر تھا اور اب یہ 88 ویں نمبر پر پہنچ گيا ہے۔

رپورٹ میں کہا گيا ہے، “مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی رہنمائی میں انسانی حقوق کی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے، دانشوروں اور صحافیوں پر دھونس جمانے اور لنچنگ سمیت مسلمانوں پر سلسلہ وار متعصبانہ حملے جاری رہے ہیں۔”

رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ مودی کے 2019 ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہونے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران حکومت نے جو اقدامات کیے اس سے انسانی حقوق کےمزید متاثر ہو نے جیسی وجوہات کے سبب بھارتی آزادی کی ریکنگ میں اس قدر تنزلی آئی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ مودی کی حکومت اور ریاستی سطح پر اس کے دوسرے اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف جہاں سخت کارروائیاں جاری رہیں، وہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے، “مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنايا گيا اور انہیں غیر مناسب طریقے سے اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا گيا، ۔” اس سے ان پر ہندو گروپوں کی جانب سے حملے بڑھ گئے۔

سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

اس میں کہا گيا ہے، “جمہوری اقدار کے چیمپیئن کے طور پر کا کرنے اور چین جیسے آمرانہ ممالک کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی بجائے، مودی کی حکومت اور ان کی پارٹی المانک طور پر بھارت کو آمریت کی جانب لے کر بڑھ رہی ہے۔”

اس بار آزادی کے انڈیکس میں سب سے زیاد یعنی 100 نمبر یورپی ملک فن لینڈ کو ملے ہیں جو دنیا کا سب سے آزاد ملک قرار دیا گيا ہے جبکہ سب سے کم ایک نمبر شام اور تبت کو ملا جو دنیا کے سب سے کم آزاد ملک ہیں۔

اس رپورٹ کو تیار کرنے کے متعدد معیار ہیں جس میں ملک کی عدلیہ کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، غیر حکومتی اداروں کی آزادی اور عوام کی نقل و حمل کی آزادی جیسے پہلوؤں کا جائزہ لیا جا تا ہے۔ ان تمام شعبوں میں بھارت کی رینکنگ میں کمی آئی ہے۔

بھارت میں انٹرنیٹ کی آزادی کو تو صرف 51 نمبر ملے اور کہا گيا کہ گزشتہ تین برسوں سے بھارت میں انٹر نیٹ کی آزادی مسلسل گھٹتی گئی ہے۔ اس میں گزشتہ برس کے دہلی کے مسلم کش فسادات کا خاص طور پر ذکر شامل ہے۔ ان فسادات میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں سے بیشتر مسلمان تھے۔