تحریر : علی عمران شاہین کروڑوں انسان ہیں اور سبھی جیبوں، ہاتھوں میں کاغذ کے کرنسی نوٹ لئے قطار اندر قطار بینکوں کے باہر دھکے کھا رہے ہیں کہ وہ ان نوٹوں کو تبدیل کرا لیں۔ گھنٹوں قطاروں میں کھڑا ہونے سے کتنے ہی لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں تو کتنے ہی ہوش و حواس کھو کر عالم مدہوشی میں چلے جاتے ہیں۔چند دن میں 60سے زیادہ لوگ جانوں سے گز ر گئے۔کتنے بیمار پیسے کی اس تبدیلی کے چکر میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے کہ دوائی نہ خریدی جا سکی ۔کتنے مزید بیمار پڑ گئے ۔بے شمار گھر بیٹھے بیٹھے دیوالیہ ہو گئے ۔یہ سب وہی لوگ جنہوں نے یہ دولت دن رات کی محنت سے کمائی اور جمع کی تھی، اب انہیں چاروں طرف اندھیرا ہی دکھائی دے رہا ہے اور اسی اندھیرے میں انہیں بینکوں کے باہر رات ہو چلی ہے۔
یوں اب وہ سخت سردی کی پروا کئے بغیر بینکوں کے باہر ہی ڈیرے ڈالے بھوکے پیاسے لیٹے پڑے ہیں کہ جیسے ہی اگلے روز بینک اپنے کام کا آغاز کرے تو وہ سب سے پہلے نوٹ تبدیل کرا لیں۔ ان لامحدود قطاروں اور بینکوں کے باہر بیٹھے لوگوں میں ضعیف العمر مرد و خواتین بھی شامل ہیں جو زندگی کے اس آخری حصے میں ایک نئے عذاب میں مبتلا ہیں۔ سوا ارب سے زائد انسانوں کے اس ملک میں کوئی دکاندار کسی سے کوئی نوٹ نہیں لے رہا کہ بڑے نوٹ چلتے نہیں اور چھوٹے نوٹ ناپید ہو چکے ہیں۔ کاروبار زندگی تھم چکا ہے تو کوئی خریداری نہ ہونے سے گھروں میں کھانے پینے کے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ تھمتی زندگی میں انہی حالات میں ساتھ ہی خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ اب بھارت کے شہریوں نے اس عذاب سے تنگ آ کر خودکشیاں شروع کر دی ہیں۔ یہ خودکشیاں کرنے والے کون ہیں؟ اکثر و بیشتر غریب اور نچلے درجے کے عوام، جو پہلے ہی عذاب در عذاب زندگی گزارتے ہیں۔
ابھی کل ہی خبر آئی کہ بھارت میں روزانہ اوسطاً 40کسان غربت و افلاس اور حکومتی قرضوں کے بوجھ سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ یہ وہی بھارت ہے جسے اس کے ایک وزیراعظم من موہن سنگھ نے ”چمکتا بھارت” “Shining India” کے نام سے موسوم کیا تھا تو نیا وزیراعظم نریندر مودی اس سے بھی بڑے نعرے لگا رہا ہے۔ اسی نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے کوئی اڑھائی سال بعد قوم سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پہلا خطاب کیا کیا، ایک طوفان ہی بپا کر دیا اور اپنے ہی ملک کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کر دیا۔ کسی نے کہا تھا کہ ”برا بولنے سے چپ ہی بہتر ہوتی ہے” لیکن نریندر مودی بولے بغیر نہ رہ سکا اور بولا تو ہر طرف اپنی باتونی زبان سے خوب افراتفری مچا دی۔ بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے ملک سے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ اس لئے ختم کر رہے ہیں کہ ملک کی آزادی پسند تحریکیں اور کالے دھن کا کاروبار کرنے والے جعلی نوٹ پھیلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اسے ملک سے کرپشن روکنے کی کاوش قرار دیا۔
Narendra Modi
بھارت کہتا ہے کہ اس کے ملک میں برسرپیکار آزادی پسند اور جہادی تحریکیں جعلی کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ بیرون ملک سے جعلی کرنسی لاتے، ملک میں پھیلاتے اور پھر اس کے ذریعے حملے بھی کرتے ہیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بھارتی خفیہ اداروں نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ان حملوں کے لئے لشکرطیبہ نے مجموعی طور پر 70لاکھ روپے کا سرمایہ استعمال کیا تھا جس میں سے 40لاکھ کے نوٹ جعلی تھے۔ باالفاظ دیگر اس وقت بھارتی حکومت کو جیسے پریشانی ہوئی تھی کہ اگر حملے کرنے ہی تھے تو کم از کم نوٹ تو اصل استعمال کرتے اور اربوں کھربوں کے دیگر نقصان کے ساتھ 40 لاکھ کا یہ نقصان تو نہ کرتے۔ بھارت اب اس سے پریشان ہے کہ اس کے ملک میں مصروف عمل ایسی تنظیمیں بڑے پیمانے پر جعلی کرنسی پھیلا کر اس کی معیشت کا بھرکس نکال رہی ہیں اسی لئے تو بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے مودی کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے بیان داغا کہ ان کی حکومت نے بڑے نوٹ منسوخ کر کے جو کارروائی کی ہے وہ کالے دھن کے خلاف ”سرجیکل سٹرائیک” ہے۔
بھارت کس کس مصیبت سے جان چھڑائے، پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کس قدر مہنگا پڑ رہا ہے کہ وہ اب اپنے ملک کے اندر قیدی مسلمانوں کے مظلومانہ قتل کو سرجیکل سٹرائیک قرار دے کر دل کو تسلیاں دیتے ہیں اور پھر بھی جب بات نہ بنے تو اپنی ہی معیشت کو آگ لگا کر اسے سرجیکل سٹرائیک قرار دے دیتے ہیں کہ چلو شاید دنیا اسی طرح اعتبار کرے کہ ہم نے پاکستان کے علاقے میں گھس کر سچ مچ کا سرجیکل سٹرائیک کیا تھا۔ کہتے ہیں کسی عورت نے نئی انگوٹھی بنوائی۔ وہ اڑوسنوں، پڑوسنوں اور سہیلیوں میں بیٹھ کر ہاتھ لہرا لہرا کر باتیں کرتی کہ شاید کوئی ایسے ہی اس کی انگوٹھی کو دیکھ لے اور تذکرہ تعریف آگے بڑھے لیکن جب کسی نے توجہ نہ کی تو اس نے اپنے گھر کو ہی آگ لگا لی۔ جب گھر خاکستر ہوا اور لوگ اظہار افسوس کے لئے آنا شروع ہوئے اور ساتھ ہی پوچھنا شروع کیا کہ شکر ہے خود تو بچ گئی ناں۔ اس پر وہ جواباً ہاتھ لہرا لہرا اور انگلی پر سجی انگوٹھی دکھا دکھا کر بتاتی، ہاں” میں بھی بچ گئی اور میری یہ اتنی قیمتی اور نئی انگوٹھی جو ہفتہ پہلے ہی بنوائی تھی یہ بھی بچ گئی۔
کچھ ایسا ہی حال بھارت کے ان حکمرانوں کا ہے جو پاکستان کے خلاف اپنے سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے اپنا سارا ملک ہی دائو پر لگائے بیٹھے ہیں۔ کرنسی نوٹوں کے اس نئے تماشے میں اصل بنیاد دراصل اصل زر کو کاغذ پر منتقل کرنے کا وہ جرم بھی ہے جو مغربی دنیا کے استعماری معاشی نظام نے دنیا پر مسلط کیا ہے۔ کہاں وہ سونے اور چاندی کے سکے اور اجناس کے ذریعے تجارت جو واقعی وزن اور اہمیت رکھتی ہیں اور کہاں یہ کاغذ کے نوٹ جن پر یہ تو لکھا ہوتا ہے کہ ”حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا” لیکن ملک میں موجود سونے اور چاندی کی شرح سے بیسیوں گنا جب زیادہ نوٹ چھاپے گئے ہوں تو ہر مقامی معیشت کے ساتھ وہی کچھ ہی توہوتا ہے جو کہ اب بھارت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بینک کاغذ کے نوٹ تھامنے والے کو اس کی قیمت کیا دیں گے، جو اسے نوٹ تبدیل کر کے نہیں دے پا رہے کیونکہ کاغذ تو محض کاغذ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بھارت میں اس بحران میں عقل والوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے، اگر وہ سیکھ لیں تو۔ بھارت میں کرنسی نوٹوں کا تماشا جاری تھا، ساتھ ہی اچانک افواہ پھیلی کہ ملک میں نمک اور چینی کی کمی واقع ہو چکی ہے اور ہو سکتا ہے کہ کل سے نمک اور چینی بھی نہ ملے۔ بس پھر کیا تھا، نوٹوں کی مار سے چور لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا اور چینی میٹھا زہر بن گئی۔ اس وقت حالت زار یہ ہے کہ نمک 5سو روپے کلو اور چینی 4سو روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں اور لوگ حیران و پریشان آنکھیں پتھرائے ٹکریں کھاتے پھر رہے ہیں کہ نوٹوں کے زخم اٹھائیں یا نمک اور چینی کے پیچھے بھا گیں۔
حکومت لوگوں کو تسلیاں دے رہی ہے کہ نہ نمک کی کمی اور نہ چینی کی… لیکن جھوٹوں پر اعتبار کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان پھاڑ رہے ہیں، گولیاں مار رہے ہیں اور لوگ نمک کے پیچھے یوں بھاگ پڑے ہیں کہ اس کے بعد بازار میں نمک نایاب ہو گیا ہے۔ بھارت کے حکمرانوں اور ان کے ہمنوا عوام نے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کیلئے ہر ممکن کوششیں کی تھیں۔ امریکہ اور بھارت کے آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اب وہی وقت آنے والا ہے کہ جب دنیا ”خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو” کا عملی مظاہرہ دیکھے گی اور دونوں طرف وہ وقت آ کے ہی رہے گا کہ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے”۔ اور ان ظالموں کے ہاتھوں سے پسے مظلوموں کو نجات بھی ملے گی۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ 0321-4646375)