مودی و فسادات، لازم و ملزوم

Indian Newspapers

Indian Newspapers

بھارتی اخبار نے ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات، پاک بھارت تعلقات اور اس کے مستقبل کے حوالے سے رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ ممکنہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں لچک پیدا کرنی چاہیے۔ بی جے پی کا پاکستان سے تعلقات بارے رویہ سخت اور غیر لچکدار ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں کامیابی کے بعد اگر جامع مذاکرات ناکام ہوئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی تبدیل کی گئی تو انتخابات کا یہ نتیجہ پیچیدہ ثابت ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کی صورت میں دو جوہری پڑوسیوں کے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت لچکدار رویہ اپنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ مسئلہ کشمیر، پاک افغان سرحدوں پر شدت پسندی میں اضافہ بھارت کے جوہری نظریے میں جدت پیدا کر سکتا ہے۔

نریندر مودی پاکستان اور چین سے متعلق رویے میں مزید سختی پیدا کر سکتے ہیں تاہم معاشی استحکام کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کا فروغ بھی فوجی مفادات پر مبنی ہوگا اور نئے بھارتی وزیر اعظم اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ تجارتی اور ویزہ پالیسی میں نرمی کا معاہدہ کر کے باہمی کشیدگی ختم بھی کر سکتے ہیں۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ کانگرس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا میچ فکس ہو چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار انتہا پسند ہندو رہنماء نریندر مودی انتخابی مہم پر کھربوں روپے اڑا چکے ہیں۔ صرف اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے مودی نے پانچ کھرب روپے خرچ کئے۔ بھارتی میڈیا میں ہر طرف نریندر مودی کے اشتہارات چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابی مہم میں بی جے پی کہیں دکھائی نہیں دیتی، یوں لگتا ہے جیسے نریندر مودی پارٹی بھی خود ہیں اور امیدوار بھی خود۔ کانگرس اور عام آدمی پارٹی کے رہنماء کئی بار الزام لگا چکے ہیں کہ نریندر مودی انتخابی مہم میں کالا دھن لگا رہے ہیں۔

نوٹوں کی جھلک دیکھ کر بھارتی میڈیا بھی مودی کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے جبکہ بھارتی سرمایہ دار اور سٹیبلشمنٹ بھی انتہا پسند ہندو رہنماء کی حمایت کر رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجرویوال کا کہنا ہے کہ کانگرس اور بی جے پی کے درمیان میچ فکس ہو چکا ہے۔ کیجریوال کا کہنا تھا کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی کرپشن کے خلاف تحقیقات نہیں چاہتیں۔ نریندر مودی نے سارا میڈیا خرید لیا ہے۔ بھارتی انتخابات میں جہاں ایک طرف نریندر مودی کی مہنگی ترین مہم کا چرچا ہے وہیں امرتسر کا ایک امیدوار سائیکل پر گھر گھر جا کر ووٹ مانگنے میں مصروف ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مسلمان امیدوار محمد یوسف اپنے سیکورٹی اہلکاروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا کر انتخابی مہم چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔نریندر مودی 1950ء میں مہسانا (گجرات) کے علاقے واڈنگر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سیاسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ بچپن ہی سے ہی جھکاو ہندو تنظیم آر ایس ایس کی جانب تھا جس پر دہشت گردی کے الزامات بھی ہیں۔ گجرات میں آر ایس ایس کی جڑیں کافی گہری تھیں۔ مودی 17 سال کی عمر میں احمدآباد پہنچے اور آر ایس ایس کے رکن بن گئے۔

Modi

Modi

سیاست میں فعال ہونے سے پہلے مودی برسوں تک آر ایس ایس کے پرچارک رہے۔ 80ء کی دہائی میں مودی بی جے پی کی گجرات شاخ میں شامل ہوئے، 1988ء میں گجرات شاخ کے جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔1995ء میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اور پانچ ریاستوں کے انتخابی انچارج بنائے گئے۔ 1998ء میں جنرل سیکرٹری (برائے تنظیمی امور) بنے۔ اس عہدے پر اکتوبر 2001ء تک رہے۔ پھر ان کی قسمت کا ستارہ چمکا اور 2001ء میں کیشو بھائی پٹیل کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد انھیں ریاست گجرات کی وزارت اعلیٰ دے دی گئی۔ نریندر مودی کے وزیراعلیٰ بننے کے تقریباً پانچ ماہ بعد ہی گودھرا ریل حادثہ ہوا جس میں کئی ہندو کارسیوک اپنی جان ہار گئے۔ اس کے فوراً بعد فروری 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے۔ ان فسادات میں حکومت کے مطابق 1000 سے زیادہ اور برطانوی ہائی کمیشن کی ایک آزاد کمیٹی کے مطابق تقریباً 2000 افراد جاں بحق ہوئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

اس پر مودی کو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم نائب وزیراعظم ایڈوانی نے انھیں بچا لیا۔ مودی نے کبھی فسادات کے بارے میں کوئی افسوس ظاہر کیا نہ ہی کسی طرح کی معافی مانگی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فسادات کے چند مہینوں کے بعد ہی جب دسمبر 2002ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مودی نے کام یابی حاصل کی تھی تو انھیں سب سے زیادہ فائدہ انہی علاقوں میں ہوا تھا جہاں سب سے زیادہ فسادات ہوئے تھے۔ اس کے بعد 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے گجرات کی ترقی کو ایشو بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ پھر 2012ء میں بھی نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی گجرات اسمبلی کے انتخابات میں فاتح رہی۔ گجرات فسادات کو مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی1947ء کے بعد سب سے خوفناک فسادات قرار دیا تھا۔ ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے بارے میں واضح شواہد سامنے آئے کہ یہ آگ و خون کا کھیل انہی کے اشارے پر کھیلا گیا۔ بعدازاں جب مودی انتظامیہ کے خلاف گواہان عدالتوں میں پہنچے تو مودی انتظامیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور چن چن کر ہر ایسے فرد کو قتل کر دیا گیا جس کی وجہ سے مودی سرکار پھنس سکتی تھی۔ زیادہ تر پولیس مقابلوں میں مار ڈالے گئے۔اب کے بار اسی نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے امیدوار برائے وزیراعظم نامزد کر دیا ہے۔

اگرچہ بی جے پی ان دنوں نریندر مودی کے بارے میں تاثر درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ان کا سابقہ ریکارڈ انھیں انتہا پسند ہندو ظاہر کرتا ہے۔ نریندر مودی نے ”گجرات میں ترقی” کا پروپیگنڈا کر کے بھارت کے بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو اپنے ساتھ ملا لیا یوں انھیں بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے میں کافی مدد ملی۔ مودی اپنے آپ کو ایک ایسے ہندو ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو ملک کے اندر اور باہر دشمنوں سے نبردآزما ہے۔مودی اگر وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو بھارت میں مسلمانوں پر مظالم میں ایک بار پھر اضافہ ہو جائے گا کیونکہ مودی کا منشور ہی یہی ہے اور اسکی زندگی انہی کاموں میں گزری ہے۔

Mohammad Shahid Mahmood

Mohammad Shahid Mahmood

تحریر: محمد شاہد محمود