نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ’عظمت کے گیت گانے والے‘ دو وزراء کو انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان وزراء کے لیے سخت شرمندگی کا باعث ٹوئٹر صارفین بنے، جنہوں نے ان کے سوشل میڈیا پیغامات کا پول کھول دیا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان وزراء کی کوشش تھی کہ وہ ملکی عوام کو سوشل میڈیا پر بتائیں کہ ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم مودی کی حکومت کتنے ’شاندار‘ کام کر رہی ہے۔ لیکن ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ، اے ایف پی کے مطابق، ان دونوں سیاست دانوں کے ’منہ شرم سے سرخ ہو گئے‘۔
جن دو بھارتی وزراء کو یہ شرمندگی ہوئی، ان میں سے ایک ریلوے کے وفاقی وزیر پییُوش گویال تھے۔ انہوں نے مودی کے ’میڈ ان انڈیا‘ کے سیاسی نعرے کو زیادہ مقبول بنانے کے لیے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ اس ویڈیو میں بظاہر بھارت کی پہلی تیز رفتار ریل گاڑی دکھائی گئی تھی، جو بہت زیادہ رفتار کے ساتھ سفر میں تھی۔
لیکن ٹوئٹر پر بھارتی صارفین نے اسی ویڈیو کی وجہ سے ریلوے کے وزیر کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا کیونکہ ویڈیو میں ٹرین کی رفتار کو ایڈیٹنگ کے دوران اصل سے دوگنا تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
اس بارے میں ایک بھارتی صارف نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’وزیر ریلوے کا بہت شکریہ! انہوں نے ویڈیو کو دوگنا رفتار سے چلا کر ٹرین کو سیمی ہائی اسپیڈ بنا دیا ہے۔ لیکن اگر وہ ایڈیٹنگ میں ویڈیو کو چھ گنا زیادہ رفتار سے چلاتے ہوئے ریکارڈ کر لیتے، تو یہی بھارتی ٹرین ایک انتہائی تیز رفتار ریل گاڑی بن جاتی۔‘‘
آخری رپورٹیں ملنے تک وزیر ریلوے نے خود اس پوسٹ پر کوئی کومنٹ نہیں کیا تھا لیکن یہ ویڈیو تب تک بھی سوشل میڈیا پر ان کی ٹائم لائن پر موجود تھی۔
دوسرے بھارتی وزیر جن کو نریندر مودی کی حمایت کرتے ہوئے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، خزانے اور جہاز رانی کے جونیئر وزیر پون رادھا کرشن تھے۔ وہ ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں مودی حکومت کی بہت تعریف کرنا چاہتے تھے۔ لیکن غلطی سے انہوں نے ایسی کئی ٹویٹس میں تعریف کے بجائے مودی حکومت پر تنقید کر ڈالی۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔
پون رادھا کرشن نے بغیر مندرجات پڑھے، جن ٹویٹس کو Modi4NewIndia# کا ہیش ٹیگ لگا کر ری ٹویٹ کیا، ان میں سے ایک ٹویٹ میں لکھا گیا تھا، ’’متوسط طبقے کے لیے بہتر فیصلے کرنا مودی حکومت کے ایجنڈے میں کہیں بہت نیچے ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسری ٹویٹ یہ تھی، ’’مودی حکومت نے ماحولیاتی منصوبوں کی منظوری کے لیے جو آن لائن ٹریکنگ سسٹم متعارف کرایا ہے، اس کی وجہ سے منظوری کا وقت 600 دنوں سے کم ہو کر 1800 دن (دراصل تین گنا زیادہ) ہو گیا ہے۔‘‘
بھارت میں بہت سے ناقدین کا الزام ہے کہ وزیر اعظم مودی کی جماعت بی جے پی سوشل میڈیا پر ایک ایسی پراپیگنڈا مہم جاری رکھے ہوئے ہے، جس کا مقصد آئندہ عام انتخابات سے قبل عوامی سطح پر اس پارٹی کی ساکھ میں بہتری لانا ہے مگر خرابی یہ ہے کہ یہ مہم مبینہ طور پر بے بنیاد اور جھوٹے دعووں کے بل پر چلائی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے ’آن لائن کارکنوں کی ایک فوج‘ بھی بنا رکھی ہے، جس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ بی جے پی اور مودی کے سیاسی مخالفین پر سوشل میڈیا پر حملے کرے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے۔