بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جموں کشمیر کا دورہ کر کے واپس جا چکے ہیں۔ اپنے پہلے دورہ کے دوران انہوںنے روایتی ضد اور ہٹ دھرمی والی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا اوردنیا پر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کی پیش کردہ لاکھوں قربانیوں اور ان کی جدوجہد کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔نریندر مودی نے جموں پہنچ کر کٹرہ اودھمپور ریلوے لائن اور اوڑی دوم بجلی پروجیکٹ کا افتتاح کیااور سری نگر میں فوجی کمانڈروں، پولیس ، سی آر پی ایف اور دیگر فورسز کے اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ کر کے وادی کشمیر اور کنٹرول لائن کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا۔
اس دوران اپنے خطاب میں انہوںنے کہاکہ میرے لئے سیاسی ہارجیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ میرا مقصدکشمیریوں کو ترقی اور فائدے پہنچ کر ان کا دل جیتنا ہے۔ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ کے بعدکشمیریوں کو سبز باغ دکھانے میں مصروف ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ جموں اور بارہمولہ کے درمیان ریلوے ٹریک فوری طور پر مکمل کی جائے گی اورپونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ کی طرح وادی کشمیر میں ٹنگمرگ، پہلگام اور سونہ مرگ سمیت دیگر صحت افزا مقامات پر بھی ریلوے لائن بچھانے کی کوششیں کی جائیں گی۔
کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کشمیری قوم کو سہانے سپنے دکھا کر نریندر مودی کا دل جیتنے میں مصروف ہیں لیکن شاید وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ کشمیری قوم کے ذہن اب اس قدر پختہ ہو چکے ہیں کہ انہیں دھوکہ دینا اب اتنا آسا ن نہیں ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مودی سرکار کشمیریوں کی خیر خوا ہ نہیں ہے۔ کٹرہ اودھمپور ریلوے لائن کی تعمیر کشمیریوں سے زیادہ ان ہندوئوں کیلئے ضروری تھی جو ہر سال تقریبا ایک کروڑ کی تعداد میں وشنو دیوی کے درشن کیلئے یہاں آتے ہیں۔ ان ہندوئوں کوپہلے جموں ریلوے اسٹیشن پہنچ کر سڑک کے راستے کٹرہ پہنچنا پڑتا تھامگر اب یہ یاتری براہ راست کٹرہ پہنچ سکیں گے۔
اسی طرح اوڑی دوم پروجیکٹ کے حوالہ سے بھی کہاجارہا ہے کہ اس سے کشمیریوں کو گھر روشن ہوں گے مگر یہ باتیں بھی محض فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ پہلے بھی بھارت سرکار کی جانب سے کشمیر میں جتنے ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس تعمیر کئے گئے انہیں بناتے وقت کشمیریوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس میں سے انہیں بجلی بھی ملے گی اور طے شدہ معاہدوں کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ بجلی پروجیکٹ ریاست کو واپس کر دیے جائیں گے لیکن اس وقت یہ صورتحال ہے کہ این ایچ پی سی کی طرف سے لگائے جانے والے تمام بجلی پروجیکٹس سے کشمیریوں کوآٹے میں نمک کے برابر حصہ مل رہا ہے۔ معاہدوں کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ بجلی پروجیکٹ نا صرف یہ کہ انہیں واپس نہیں کئے گئے بلکہ ان معاہدوں سے ہی سرے سے انکار کر کے کہاجارہا ہے۔
ان کے دفاتر میں موجودان تمام معاہدوں کی فائلیں ہی غائب ہو گئی ہیں۔ کشمیریوں کے گھروں پر میٹر لگا کر ان سے تاوان وصول کیاجارہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے انہیں سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر دوسری جانب بھارت سرکار ان پروجیکٹس اپنے اندھیروں میں ڈوبے دوردراز کے علاقوں کو روشن کر رہی ہے۔اوڑی دوم کے نام سے جس نئے پروجیکٹ کا ڈھنڈورا عمر عبداللہ پیٹ کر کشمیریوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے بھی بے چارے مظلوم کشمیریوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ وہ اگر اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو پہلے سے بھارتی قبضہ میں موجود ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس کی واپسی کی بات کیوں نہیں کرتے؟ محض سبز باغ دکھانے سے وہ بیدار مغز کشمیری قوم کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ نریندر مودی کے حالیہ دورہ کے دوران بھارت فورسز کی طرف سے سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے۔ پورے جموں کشمیر کو چھائونی میں تبدیل کریا گیا۔
سڑکیں سیل کر دی گئیں تو عمارتوں پر شوٹرز تعینات کر دیے گئے۔ شہری علاقوں میں کرفیو کی کیفیت رہی۔ بھارت سرکا رکی پوری کوشش تھی کہ مودی کے دورہ کے دوران کسی قسم کی کوئی عسکری کاروائی یا احتجاجی مظاہرے نہ ہوں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ کشمیریوں کی طرف سے ہزاروں مسلمانوں کے قاتل وزیراعظم کے دورہ کے دوران کسی قسم کے سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا لیکن ایسا بھلا کیسے ممکن تھا؟ جس قوم نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد جانوں کو نذرانہ اس تحریک آزادی میں پیش کیا ہے وہ اپنے گھروں میں کیسے بیٹھ سکتے تھے؟
Kashmiris
نہتے کشمیریوں نے نریندر مودی کی آمد پر نا صرف ہڑتال کی بلکہ سول کرفیو کی کیفیت کا ماحول پیدا کیا۔ کشمیری گھروں سے باہر نکلے تو بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور محض احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کیلئے وگرنہ پوری وادی کشمیر سنسان رہی۔ بھارتی فورسز کی جانب سے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت شبیر احمد شاہ، نعیم احمدخان، ظفر اکبر بٹ، محمد اشرف صحرائی، ایاز اکبر و دیگر لیڈروں کو ایک دن پہلے ہی گھروںمیں نظر بند کر دیا گیا تو جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یٰسین ملک سمیت سینکڑوں کی تعداد میں تحریک آزادی سے وابستہ سرگرم حریت پسند کارکنان کو گرفتار کر کے جیلوںمیں ڈال دیا گیا مگر آفرین ہے۔
کشمیری قوم پر کہ ان سب پابندیوں کے باوجود کشمیریوںنے سڑکوں پر نکل کر دنیا کو پیغام دیا کہ غاصب بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کے بدترین مظالم کے باوجود تھکے نہیں ہیں اور کشمیرپر اس کا قبضہ کسی صور ت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ تاریخی ہڑتال مودی سرکار کے منہ پر بدترین طمانچہ ہے۔ کشمیریوںنے کامیاب ہڑتال کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا کہ وہ بی جے پی کی طرف سے دفعہ 370 ختم کرنے اور کشمیری پنڈتوں کے نام پر اسرائیل کے تعاون سے یہاں ہندو انتہا پسندوں کو بسانے کی کوششیں کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بہرحال جہاں تک نریندر مودی کی طرف سے دورہ مقبوضہ کشمیر کے دوران مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہ کرنے کی بات ہے تو بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی درست کہتے ہیں کہ یہ شتر مرغ کے ریت میں سر چھپانے کے مترادف ہے۔
اس طرح کے طرزِ عمل سے ٹھوس اور منہ بولتے حقائق کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سنگین انسانی اور سیاسی مسئلے کو سائیڈ لائن کیا جاسکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ مودی سرکار کشمیر میں سونے کی سڑکیں اور ریلوے ٹریک بھی بچھا دے تو بھی مظلوم کشمیری حق خودرارادیت کے اپنے مطالبہ سے کسی صورت درستبردار نہیں ہوں گے اور نہ ہی وہ اپنی قربانیوں اور خواہشات کے ساتھ کسی قسم کی کوئی سودے بازی کرنے پر تیار ہوں گے۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے کشمیریوں کے دل جیتے والا بیان مظلوم کشمیریوں کا دل بہلانے کی ناکام کوشش ہے۔
الفاظ کے ہیر پھیر سے انہیں مطمئن نہیں کیاجاسکتا۔ وہ اگر اپنی بات میں سچے ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ کشمیریوں کی جانب سے کئے جانے والے حق خودارادیت کے اس مطالبہ پر دھیان دیتے جو وہ پچھلے ستاسٹھ برس سے کرتے آرہے ہیں اور جس کی خاطر ان کی نسلیں بے پناہ مصائب جھیل رہی ہیں۔ ان کی عزتیں و حقو ق محفوظ نہیں اور ان کے جوان اجتماعی قبروںمیں دفن ہو رہے ہیں۔ مودی کی طرف سے ان سب باتوں سے صرف نظر کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ یہاں صرف سیاست کرنے ہی آئے تھے کیونکہ حقائق کو نظر انداز کر کے مظلوم کشمیریوں کے دل نہیں جیتے جاسکتے۔
Kashmir
ہ جس پاور پروجیکٹ کا افتتاح کر کے جارہے ہیں اس کافائدہ محض بھارتیوں کو ہی ہو گا کشمیریوں کے حصے میں ابھی تک محض پابندیاں، گرفتاریاں اور ان کی نوجوان نسل کا قتل عام ہی آرہا ہے لیکن مودی سرکار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سابقہ حکومتیں بھی طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی تحریک آزادی نہیں کچل سکیںاور اگر اس نے اپنی غرور و تکبر والی کشمیر پالیسی تبدیل نہ کی تو اس کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری ہے اور پوری قوت سے ان شاء اللہ جاری رہے گی۔