پاکستان کے خلاف جنگی جنون رکھنے والے بھارت کا دفاعی سازوسامان ناکارہ ثابت ہونے لگا،بھارتی فضائیہ کاجنگی طیارہ مگ 21 تکنیکی خرابی کے باعث گر کرتباہ ہوگیا ہے،بھارتی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ لڑاکا طیارہ ریاست راجستھان میں گرکرتباہ ہوا، طیارے سے پرندہ ٹکرا گیا تھا۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ساتھ جنگ کا جنون رکھنے والے بھارت کو دفاعی سازوسامان کے ناکارہ ہونے پر دن میں تارے نظر آنا شروع ہو گئے، بہتر ہوا بھارت نے پاکستان کے ساتھ کوئی جنگ کا پنگا لینے کی ہمت نہیں کی، ورنہ انڈین لڑاکا طیارے اڑتے ہی گرنے لگ جاتے۔بتایا گیا ہے کہ بھارت کا جنگی طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث گر کرتباہ ہوا ، جبکہ بھارت نے اپنی عوام اور میڈیا کی تنقید کے خوف سے طیارے کی تباہی کو پرندہ ٹکرانے سے جوڑ دیا، دوسری جانب بھارت کی حالیہ جنگی مشقوں کے نتائج کو دیکھا جائے یا پھر پاکستان کے ساتھ جھوٹے سرجیکل اور ایئراسٹرائیک کو دیکھا جائے تو بھارتی فوج اور حکومت اپنی عوام کو پے درپے جھوٹ بول کر بے وقوف بناتی رہی ہے۔جس کی اصل حقیقت وقت کے ساتھ بھارتی عوام پر بھی عیاں ہوتی جا رہی ہے۔
بھارتی قیادت کے ماضی میں مسلسل جھوٹے دعوؤں کے باعث قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ جنگی طیارہ پرندہ ٹکرانے سے نہیں بلکہ تکنیکی خرابی کے باعث گر کرتباہ ہوا۔تاہم بھارتی فضائیہ کے کنٹرول میں ہے کہ وہ تحقیقات میں طیارے کی تباہی کو پرندہ ٹکرانے سے جوڑتی ہے یا پھرحقیقت اپنی عوام کو بتاتی ہے کہ لڑاکا طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث ہی گر کرتباہ ہوا ہے۔ اس سے قبل پچھلے مہینے فروری میں ایئرشوکی ریہرسل کے دوران بھارت کے دو طیارے گرکرتباہ ہوگئے تھے، جس میں بھارت کا ایک پائلٹ بھی ہلاک ہوگیا تھا، اسی طرح بھارت کے دو طیارے آپس میں ٹکرانے سے تباہ ہوئے، جس سے بھارتی کی آپریشنل تیاریوں کا پول کھل جاتا ہے کہ بھارتی فضائیہ کس قدر تربیت یافتہ ہے؟ اسی طرح بھارت کے دو طیارے پاکستان نے تباہ کرکے مودی سرکار کے جنگی جنون کو ٹھنڈا کیا، بھارت کا مگ 21 طیارہ پاکستانی پائلٹ نے مارگرایا تھا جب بھارت کے دو طیاروں نے پاکستانی خلائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایل اوسی کو عبور کیا تھا، توپاک فضائیہ کے ہونہار اور انتہائی چاک وچوبند پائلٹس نعمان اور حسن نے آنکھ جھپکتے ہی دونوں طیاروں کو مار گرایا تھا۔اسکوارڈرن کمانڈرحسن نے مگ 21 جبکہ ونگ کمانڈر نعمان نے ایس یو30 کو مار گرایا تھا۔ جس پر بھارت کو دنیا بھر میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان پر حملے کا سوچنا بھی بھارت کو بھاری پڑگیا ہے۔
پاک فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست مقدر بنی تو کبھی بھارتی فضائیہ کے اناڑی پائلٹوں نے اپنے ہی طیارے آپس میں ٹکرا دیئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ایئر فورس 20 دنوں میں 5 جنگی جہازوں اور ایک ہیلی کاپٹر سے محروم ہوگئی ہے۔ یوں بھارت کو 20 روز کے اندر اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ رواں ماہ 19 فروری 2019ء کو بھارتی فضائیہ کے دو طیارے ائیرشو کی ریہرسل کے دوران گر کر تباہ ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ایک پائلٹ ہلاک ہو گیا۔ اگر ماضی میں بھارتی فضائیہ کے حوالے سے خبروں کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی فضائیہ کے طیاروں کی تباہی ہی کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارتی حکومت کی فضائیہ کے طیارے اگر صرف ریہرسل کے دوران ہی گر کر تباہ ہو سکتے ہیں تو پھر اتنی ناقابل فضائیہ کسی ملک میں داخل ہو کر کیسے فضائی کارروائی کر سکتی ہے۔یکم فروری 2019ء کو بھارتی فضائیہ کا ایک میراج 2000 طیارہ بھارتی ریاست بنگلورو میں گر کر تباہ ہوا جس کے نتیجے میں 2 پائلٹس ہلاک ہوئے۔
یہی نہیں گذشتہ برس 3 اپریل 2018ء کو بھارتی فضائیہ کا طیارہ Mil Miـ17ـV5 لینڈنگ کے دوران گر کر تباہ ہو اجس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے۔ 23 مئی 2017ء میں بھارتی ائیر فورس کا طیارہ Sukhoi Suـ30MKI ٹریننگ کے دوران آسام کے علاقہ میں لا پتہ ہو گیا۔جس کے تین دن کے بعد طیارے کے ٹکڑے اور بلیک باکس ملا۔ اس حادثے کے نتیجے میں طیارے کے دونوں پائلٹس ہلاک ہو گئے تھے۔ دونوں پائلٹس طیارہ تباہ ہونے سے قبل طیارے سے باہر نکلنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ 19 اکتوبر 2016ء میں بھارتی ائیرفورس کا طیارہ Mil Miـ17V5 ٹریننگ کے دوران تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہو گیا لیکن طیارے میں موجود 15 افراد نے طیارہ گرنے سے قبل ہی چھلانگ لگا دی تھی اور محفوظ رہے تھے۔ 3 اکتوبر 2016ء کو بھارتی ائیر فورس کا SEPECAT جیگوار کا تربیتی طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے پوکھراں کے علاقہ میں گر کر تباہ ہو گیا تھا ، طیارے میں سوار دونوں پائلٹس نے طیارہ گرنے سے قبل ہی چھلانگ لگا دی جس سے وہ محفوظ رہے۔پاکستان سے رہا ہونے والے بھارتی پائلٹ ابھینندن کے ہیلمٹ کو پاک فضائیہ کے میوزم کا حصہ بنا دیا گیا، پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی گھڑی، وردی اور طیارے کا ہیلمٹ اپنی تحویل میں رکھا گیا۔بھارتی پائلٹ کو پاکستان کی فضائی حدود میں گھسنے پر پاک فضائیہ کے طیارے نے 27 فروری کو مار گرایا تھا۔
بھارتی پائلٹ کو جمعہ کی شب واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کرتے ہوئے پاک بھارت حکام نے ایک ایک دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ اس دستاویز پردرج تھا کہ جنگی قیدی ابھینندن کو درج ذیل اشیا کے ساتھ واپس کیا جا رہا ہے۔ اور ان اشیا میں نیلے رنگ کی ایک جی شاک کیسیو رسٹ واچ، ایک انگوٹھی اور چشمہ شامل تھا۔ 27 فروری کو کنٹرول لائن پر آزاد کشمیر کے گاؤں پونا کے قریب جب بھارتی پائلٹ کو حراست میں لیا گیا تو اس کے قبضے سے نقشے، مختلف دستاویزات کے علاوہ ایک پستول بھی برآمد ہوا تھا جو ہر پائلٹ کے پاس ہوتا ہے۔بھارتی پائلٹ اپنی وردی میں ملبوس تھا تاہم مقامی لوگوں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کے بعد جب طبی امداد دی گئی تو ابھینندن کی وردی کا نچلا حصہ کاٹنا پڑا تھا۔ پاکستان بھارتی پائلٹ کی کسی بھی طرح کی فوجی اشیا واپس کرنے کا پابند نہیں تھا۔جنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 18 اور آرٹیکل 97 کے تحت کسی بھی جنگی کی ذاتی استعمال کی اشیا اس سے نہیں لی جاسکتیں تاہم حراست میں لینے والا ملک تمام فوجی آلات اور اشیا قبضے میں لے سکتا ہے۔ان آرٹیکلز کے تحت واپسی پر قیدی کو ذاتی استعمال کی اشیا ہی دی جائیں گی۔
تاہم ابھینندن کی واپسی کے وقت بھارتی دفاعی ماہرین اور حکام کو اس بات کی زیادہ تشویش تھی کہ کہیں اسے وردی میں نمائش کے لیے پیش نہ کردیا جائے اور وہ بھی نامناسب پھٹی ہوئی وردی میں۔ کیونکہ اس سے پہلے 1999ء میں کارگل جنگ کے دوران پکڑے گئے بھارتی پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ نچیکتا کو جب پاکستان نے بھارت کے حوالے کیا تھا تو اسے اس کی اپنی پائلٹ کی وردی کے بجائے ایک اور ڈھیلی ڈھالی وردی پہنائی گئی تھی۔اسی کے پیش نظر گزشتہ جمعہ کو ابھینندن کی واپسی کے موقع پر بھارتی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ابھیندن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا لیکن ابھینندن کو سویلین تھری پیس سوٹ میں بھارت بھیجا گیا۔ 1999ء میں جہاں بھارت میں نچکیتا کے استقبال میں غیرمعمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا وہیں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ابھینندن کا استقبال کافی ٹھنڈا تھا۔ابھینندن کو بھارت واپسی پر ہیرو سے زیرو بنا دیا گیا تھا۔ابھینندن کی واپسی پر اسے سیلوٹ تک نہ کیا گیا بلکہ اس کے ہسپتال میں مکمل میڈیکل ٹیسٹ کئیے گئے اور بھارتی وہ چپ تلاش کرتے رہے جو اس کے جسم میں جاسوسی کے لئے لگائی گئی تھی۔بھارتی وزیر دفاع اسے ہسپتال میں ملے تو سہی لیکن اتنے دور بیٹھے جیسے ابھی نندن کو کوئی موذی مرض ہو۔۔۔۔