تحریر : نسیم الحق زاہدی بوسنیا کے صدر”علی عزت بیگویچ”نماز جمعہ میں ایک بارلیٹ پہنچے ‘جبکہ ان کا معمول تھا کہ وہ ہمیشہ نماز کی اگلی صفوں میں پائے جاتے لوگ انہیں دیکھ کر راستہ دیتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ اگلی صف تک جا پہنچے ۔تب انہوں نے رخ پھیر کر نمازیوں کی طرف دیکھا اور مشہور جملہ کہا”ہاں تو تم اپنے طاغوت اپنے ہاتھوں یوں بنا لیتے ہو”حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں ”اگر کسی عالم کو حکمران کے در پر دیکھوتو اس کے دین پر شک کرو”مولانا طارق جمیل صاحب سابقہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جوکہ جھوٹ بولنے ‘عدالت اور عوام کو گمراہ کرنے کی وجہ سے نا اہل ہو چکے ہیں۔
ان کے گھر گئے اور ان کو مصائب کے حل کے لیے ‘بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کیں اور وظائف بھی بتائے ۔پروفیسر سینٹر ساجد میر صاحب نے ختم نبوت شق میں ترمیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”علماء انگریزی سیکھیں امید وار نے ( Solemn affimation) کیساتھ دستخط کرنے ہیں جو حلف نامہ ہی ہوتا ہے ”ختم نبوت شق ترمیم کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن صاحب کے نے مختلف بیانات دئیے پہلا بیان ”ختم نبوت کے حوالے سے شق میں ترمیم پروپیگنڈا ہے ”دوسرا بیان”شق میں ترمیم کی گئی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ”تیسرا بیان”ترمیم واپس لی جارہی ہے غلطی تسلیم کرنا (ن)لیگ کا بڑا پن ہے ”چوتھا بیان ”میرے فون اور حافظ حمد اللہ کے احتجاج نے حکومت کو ترمیم واپس لینے پر مجبور کردیا”پانچواں بیان”مشترکہ غلطی ہے ہم سب سے ہوئی ہے ”چھٹا بیان”حکومت نے امریکہ کے کہنے پر ختم نبوت قانون میں ترمیم کی”تحریک تحفظ حرمین الشریفین کے سربراہ اور ممتاز عالم دین علامہ زبیر احمد ظہیر نے پروفیسر ساجد میر کے خوشامدی بیان پر کہاکہ ”ناموس رسالت معاملے پر قوم متحد ‘ساجد میر کے بیان سے امت مسلمہ کو نقصان پہنچا ‘ختم نبوت ایکٹ سے چھیڑ چھاڑ باعث تشویش ہے۔
قادیانی بھی مسلمان ہیں رانا ثنا اللہ کے اس بیان کی تردید اور دفاع امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان ایم پی اے مولانا الیاس چنیوٹی نے ان الفاظ میں کیا کہ”رانا ثناء اللہ نے قادیانیوں کو کبھی مسلمان نہیں کہا’رانا ثناء اللہ نے واضح بیان دیکر اپنی پوزیشن کلیئر کرچکے ہیں ان کی بات کوتسلیم کرنا چاہیے ۔نواز شریف کی نا اہلی مولانا فضل الرحمن صاحب کے بقول یہ جمہوریت کا قتل ہے اور انہوں نے جمہوریت کی بقا اور سلامتی کے لیے بھر پور کوشش کی ہے ‘اس شخص کو بچانے کے لیے جس کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے جھوٹا ثابت ہونے پر سزا دی ہے ‘یادداشت کے لیے سپریم کورٹ کے الفاظ قومی اخبارات کی شہہ سرخیاں درج ذیل ہیں ”نواز شریف نے پارلیمنٹ اور عوام کو بیوقوف بنایا”نواز شریف نے اثاثے چھپائے قوم پارلیمنٹ سے جھوٹ بولا”نواز شریف نے جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا”نواز شریف نے جان بوجھ کر اثاثے چھپائے ”نواز شریف نے جھوٹ بولا پارلیمنٹ عوام ‘عدالت کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی”جھوٹ سے بہتر تھا نوز شریف مستفعٰی ہو جاتے”مولانا فضل الرحمن صاحب آپ ایک عالم ‘اور عالم دین کے بیٹے ہیں جنکی دین ‘قوم وملک کے لیے عظیم خدمات ہیں ‘جن میں ختم نبوت1953میں حصہ اور قید وبند کے مراحل۔مسئلہ رئویت ہلال کے حل کے میں کلیدی کردار ۔جمعیت علمائے اسلام کے احیاء میں کردار 1956کا دستورتنقیدات وترمیمات۔جہاد کانفرس کا انقعاد ۔فیملی لاز (عائلی قوانین)کو خلاف اسلام ثابت کرنے کی مساعی ۔وفاق المدرس العربیہ کے قیام وتنظیم میں کلیدی کردار ۔مجمع الجوٹ الاسلامیہ جامعہ ازہر کے اجلاسوں میں شرکت اور فقہی پر بحث ومحیص ۔ڈاکٹر فضل الرحمن کے گمراہ کن نظریات کی مخالفت میں قائدانہ کردار ۔جشن ملتان رقص وسرورکی محفل کے خلاف تحریک کی قیادت اور گرفتاری ۔دینی ومذہبی جماعتوں کا اتحاد میں فعال کردار ۔دینی وتعلیمی اصلاحات وقوانین کا اجراء ۔شراب پر پابندی(یکم مئی 1972بحثیت وزیر اعلیٰ)جوئے ‘سودپر پابندی ۔جہیز ایکٹ ۔احترام رمضان آرڈینس ۔پردہ نسواں جمعہ کی تعطیل کی سفارش ‘اردوکو سرکاری زبان قراردینا’سرکاری لباس (شلوارقمیض)’اہم تعلیمی اصلاحات ‘آئین کی تشکیل اور اسلامی دفعات شامل کرنے میں کامیاب کردار وغیرہ۔
مولانا فضل الرحمن صاحب آپ کو قرآن پاک میں جھوٹ پر احکامات نظر نہیں آئیں ؟آپ کو نبی رحمت ۖکی احادیث مبارکہ یاد نہیں آئیں کہ سید الانبیاء نے ارشاد فرمایا تھا کہ ”بے شک سچائی نجات دیتی اور جھوٹ ہلاک کردیتا ہے”آپ نے جس جمہوریت کو بچانے کی کوشش کی ہے جسے ذاتی امتیازات ‘ترجیحات کی بدولت اسے خالص جمہوریت بھی نہیں کہا جا سکتاکیونکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے اور یہاں تو چند خاندان ہی سالوں سے قابض ہیں جنہوں نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ان درباری خوشامدی ملائوں نے ارباب اختیار (حکمرانوں)کواپنے ہاتھوں ”طاغوت ”بنارکھا ہوا ہے اور ہم نے ان علماء کو’دین سے دوری کا عالم یہ ہے کہ آج ہم اللہ اور اس کے رسولۖکی اتباع کرنے کی بجائے ان پیشہ ور مفتیوں کی پیروی کرتے ہیں یہاں اس حقیقت کا بیان بے محل بہ ہوگا کہ امت کے ہاتھوں سے اسلام کا دامن چھوٹ گیا ہے او اسلامی عقائد کی شکست وریخت ہورہی ہے خلفائے راشدین کے دور میں امت رسولۖنے اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑے رکھی اور فاتح اور کامران رہے پھر قرآن کی نا فرمانی کرتے ہوئے قیادت’اقتداراور دوسری پر برتری حاصل کرنے والے ہوس کارسرداروں اور دین کے نام نہاد عالموں نے اپنے اپنے نظریات اور اپنے اپنے عقیدے وضع کرنے شروع کر دئیے ہیں آیات قرآنی کی تفسیر یں بدل ڈالیں اور امت کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے ابو دائود نے معاویہبن ابی سفیان کے حوالے سے کہا کہ رسول مقبولۖ نے فرمایا خبردار ہو جائو”اہل کتاب جو تم سے پہلے تھے وہ 72فرقوں میں بانٹے گئے اور میری امت عنقریب 73فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ان میں 72جہنم میں جائیں گے اور صرف ایک جنت میں جائے گا۔
جہالت کا عالم یہ ہے کہ آج ہر فرقہ خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور دوسروں کو کافر ‘کوئی بھی حق بات سننا پسند نہیں کرتا ۔پچھلے دنوں حکومتی جماعت کے ایک ایم پی ای مولانا غلام ربانی ‘اور ایک اورکسی مولانا کی ڈانس کرتے ہوئے ویڈیو نظروں سے گزری’غلطی ہی سمجھ لیں ان ویڈیو پر Commentکر دئیے کہ ”اللہ تعالیٰ ہدایت دے”اس پر ایک صاحب سید بلال سیخ پا ہوکر باقاعدہ گالیوں پر اتر آئے شاید اس لیے کہ ہم نے ”ہدایت”کی دعا کردی تھی کاش آج مالک بن انس جیسے علماء حق ہوتے جنہوں نے حاکم وقت کے حکم پر ایک جھوٹا فتویٰ نہیں دیا تھا انکی داڑھی مونڈ کر منہ کالا کرکے ان کو گلیوں ‘بازاروں میں تماشا بنایا گیا مگر اللہ رب العز ت کے آگے جھکنے والی جبیں کسی اور کہ آگے نہ جھک سکی ۔آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک اللہ اور اس کے رسول ۖکے احکامات کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے خدا کی تلاش میں ہیں آج ان کے کانوں میں آواز پڑتی ہے کہ فلاں جگہ ایک بزرگ آیا ہے جو غیب کی باتیں سناتا ہے ‘فلاں جگہ ایک بابا جی کا ظہور ہوا ہے اور یہ یہ اس کی کرامات ہیں تو لوگ کوسوں کی مسافت طے کر کے وہاں پہنچتے ہیں’یہ کیفیت آج مسلمان معاشرے میں شدت اختیار کر تی گئی جس نے آگے چل کر پیر ‘مزارپرستی اور خانقاہی نظام کی صورت اختیار کرلی ہے ۔وطن عزیز کے دیہی معاشرے کے بعض دور افتا علاقوں میں یہ رواج مذہبی رنگ اختیار کئے ہوئے ہے کہ کوئی مشکل یا مصیبت آپڑے تو لوگ خدا سے مدد مانگنے کی بجائے اپنے اپنے پیر کے آستانوں کی دہلیز پر اور ان کے مرے ہوئے باپوںکے مزاروں پر جا کر سجدے کرتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے طاغوت اپنے ہاتھوں یوں بنا لیے ہوئے ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں سمجھ کی توفیق عطا کریں’آمین۔