تحریر : روہیل اکبر انگریز کی غلامی سے آزادی دلانے والے بہادر اور نڈر محمد عالی جناح جسے ہم آج قائد اعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جسکی تصویر کے بغیر ہماری شناخت مکمل نہیں ہوتی اسکی اکلوتی اور پیاری بیٹی گذشتہ روز جہان فانی سے کوچ کرگئی 15 اگست 1919 کو لندن میں پیدا ہونے والی دینا واڈیا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اکلوتی اولاد تھیں۔ وہ 2004 میں پاکستان آئیں جو ان کا دوسرا دورہ پاکستان تھا، اس سے قبل وہ اپنے والد کے انتقال پر 1948 میں کراچی آئی تھیں۔2004 میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر دینا واڈیا نے کراچی میں واقع اپنے والد کے مزار پر حاضری دی تھی اور وہاں موجود مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات بھی درج کیے تھے۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ’’یہ میرے لیے انتہائی دکھ بھرا لیکن شاندار دن ہے، خدا میرے والد کے پاکستان کے لیے دیکھے گئے خوابوں کو پورا کرے‘‘۔دینا واڈیا 2 نومبر کو 98 برس کی عمر میں نیویارک میں انتقال کرگئیں۔1947 میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت دینا واڈیا نے پاکستان آنے کے بجائے بھارت کی شہریت حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ غیر تصدیق شدہ معلومات کے مطابق دینا واڈیا کے ان کے والد کے ساتھ تعلقات ایک موقع پر بالکل ختم ہوگئے تھے اور بھارت کے سابق جج محمد علی کریم چھاگلہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ دینا واڈیا کی جانب سے پارسی شخص نیویل واڈیا سے شادی کا فیصلہ تھا۔
البتہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کبھی بھی دینا واڈیا کو عاق کرنے کے حوالے سے انہیں قانونی نوٹس نہیں بھیجا، شادی کے بعد باپ بیٹی کے درمیان محض رسمی سا تعلق رہ گیا تھا اور قائد اعظم دینا واڈیا کو ہمیشہ ’’مسز واڈیا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔دینا واڈیا کے ایک صاحبزادے کا نام نوسلی واڈیا ہے جو معروف بزنس مین ہیں اور انہیں بھارت کے کامیاب ترین تاجروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ پارسی برادری میں بھی نوسلی واڈیا کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔دینا واڈیا کا انتقال جمعرات کو اٹھانوے برس کی عمر میں ہوا۔ وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی اکلوتی اولاد تھیں اگرچہ ان دنوں کے اختلافات تھے کیونکہ دینا واڈیا نے اپنے والد کی طرح ایک غیر مسلم سے شادی کی تھی اوروہ باقاعدگی سے عوامی توجہ سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتی تھیں دینا چاق و چوبند اور چھوٹی مگر خوبصورت تھیں رخسار کی اونچی ہڈی اور نوکیلی ناک تھی اور تحکمانہ احساسات تھے اور حیران کن طور پر ان کی شکل اپنے والد سے ملتی تھی۔
دینا واڈیا دوستانہ اور خوشگوار شخصیت کی مالک تھیں اور انکی خوبصورت ماں رتنی بائی کا انتقال اس وقت ہوا جب دینا نو برس کی تھیں۔دینا کی زیادہ تر پرورش نانی نے کی انکی اپنے والدسے پارسی اور بعد میں مسیحی مذہب اختیار کرنے والے نویل واڈیا سے شادی پر جھگڑا ہوا تھا لیکن بعد میں صلح ہو گئی تھی اور ایک دوسرے سے بات چیت اورخط وکتابت ہوتی رہتی تھی دینا کا کہنا تھا کہ جب مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ حاصل کر لیا تو ان کے والد نے انھیں دہلی سے فون کیا تھا کہ ‘ہم نے اپنا ملک حاصل کر لیا۔‘دینا کی اپنی شخصیت اور طبعیت والد اور پھر والدہ پر گئی ہے۔ دینا نے کبھی پاکستان میں اپنا گھر نہیں بنایا۔ دینا نے طویل عرصہ لندن اور نیویارک میں گزارا۔ وہ پاکستان 1948 میں اپنے والد کے جنارے میں شرکت کرنے آئیں تھیں اور پھر دوسری بار 2004میں وہ پاکستان تشریف لائیں۔
دینا کا کہنا تھا کہ انھیں بینظیر بھٹو اور دیگر پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے متعدد بار پاکستان آنے کی دعوت ملی لیکن انھوں نے مستقل مزاجی سے انکار کیا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انہیں نشانی یا علامت کے طور پر استعمال کیا جائے انکا ہمیشہ گلہ رہا کہ پاکستان رہنماؤں نے بے دردی سے ملک کو ‘لوٹا’یہی وجہ ہے آج تک کسی مسلمان ملک میں جمہوریت پروان نہیں چڑھی۔ دینا نے کراچی کا دورہ کیا جہاں وہ اپنے والد کے مزار پر گئیں اور اس کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی میں حصہ ہے۔
دینا کو آزادی ہند کی تحریک کے دن یاد تھے اور ان کے گاندھی کے بارے میں بڑی اچھی یادیں تھیں لیکن سردار پٹیل کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ سیدھے سادھے تھے جبکہ نہرو کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ان کے والد کے برابر نہیں اور خوشامد کرنے والے تھے جبکہ ہندوستان میں برطانوی وائسرے ماؤنٹبیٹن کو انھوں نے بالکل ایسی شخصیت قرار دیا جن پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھا۔اپنے والد محمد علی جناح کی نیک نامی، شہرت اور جس طرح ان کی پاکستان میں یاد منائی جاتی ہے،اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ پسند نہیں جس طرح سے ان کے والد کی’پوجا’ کی جاتی ہے دینا کے گزرنے کے ساتھ جنوبی ایشیا میں آزادی کے رہنماؤں کے ساتھ بچ جانے والا آخری تعلق بھی ختم ہو گیا۔