چشم تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں دامنوں کا فراغ ہیں ہم لوگ
تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری محمد اختر 1928 کو بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے بقول محمد اختر “میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں”ڈاکٹر مالک رام مقدمہ دیوان ساغر میں لکھتے ہیں کہ اس قول میں تھوڑی سی غلطی یہ ہے کہ محمد اختر امرتسر میں نہیں بلکہ انبالہ میں پیدا ہوئے تھے مشہور براڈکاسٹر سید ندیم جعفری کے بقول ان کی والدہ کا تعلق بھی انبالہ سے تھا اور ان کے نانا سید محمد ابراہیم چالیس گائوں کے انچارج تھے جن میں انبالہ بھی شامل تھا اور سید محمد ابراہیم کا مزار بھی انبالہ میں ہی ہے
محمد اختر کے گھر بھوک اور افلاس کا دور تھا تو اسی وجہ سے پڑھائی پر توجہ نہ دی جاسکی لیکن انہوں نے اپنے محلے کے ایک بزرگ حبیب حسن کے پاس جانا شروع کر دیا اور کچھ تعلیم حاصل کی لیکن محمد اختر اس طرح کی زندگی سے تنگ آتے چلے گئے ایک دن انہوں نے انبالہ سے امرتسر کی جانب ہجرت اختیار کر لی وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک دکان میں ملازمت اختیار کی تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد اختر لکڑی کی کنگھیاں خود تیار کرتے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے انہیں فروخت کرتے لیکن قدرت کو محمد اختر سے کچھ اور کام کروانا تھا ابھی ان کی عمر 14سال تھی کہ انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیا آہستہ آہستہ انہوں نے شعر اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر سنانا شروع کیے محمد اختر چونکہ اب شعر و شاعری سے رغبت رکھنے لگے تھے تو انہوں نے پڑھے لکھے لوگوں کی محفل میں جانا شروع کیا اور وہاں سے علم بھی حاصل کرتے اور اپنی شاعری پر داد بھی وصول کرتے محمد اختر نے شاعری کے آغاز میں اپنا تخلص “ناصر مجازی”رکھا اور اسی نام سے شعروشاعری کرنے لگے۔
غالباً 1944میں لاہور میں ایک عظیم الشان محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوا جس میں لاہور سے امرتسر تک تمام شعراء کرام تشریف لائے اس محفل میں محمد اختر کو شعراء کرام کے اسرار پر مدعو کیا گیا تھامحمد اختر کی آواز میں کمال کا فن تھا سننے والا داد دیے بغیر نہیں رہتا بس یہ مشاعرہ ہی ان کو شہرت کی بلندیوں پر لے گیا کیونکہ اس مشاعرے میں انہوںنے ہر لحاظ سے محفل لوٹ لی تھی کیونکہ اب محمد اختر کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا تو اُس نے کنگھیاں بیچنا چھوڑ دیں اور شعر و شاعری کی محافل میں جانا شروع کر دیا اور پڑھے لکھے لوگوں کے پاس جاتے محمد اختر نے اپنے کلام کی اصلاح کے لیے معروف شاعر لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے فیض حاصل کرتے رہے ایک وقت ایسا آیا کہ آپ فلموں کے لے گانے لکھنے لگے کوئی ایسی فلم نہ ہوتی جس میں ان کا لکھا گانا نہ ہوتا لوگ دور دور سے ان کے پاس اپنی فلموں کے گانے لکھوانے آتے 1947میں تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئے محمد اختر کے لاہور پہنچتے ہی دوستوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کے اشعار مختلف رسالوں میں چھپنے لگے اس زمانے میں فلم انڈسٹری کے سرپرست کمال پاشا(حکیم احمد شجاع)تھے جو کہ ڈرامہ نگارشاعر تھے وہ اسسٹنٹ پروفیسر،ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے پر بھی رہے اور ان کا ایک رسالہ “ہزار داستان “کے نام سے شائع ہوتا تھا انہوں نے محمد اختر سے اپنی بیشتر فلموں کے گانے لکھوائے۔
محمد اخترکا نام اب ایک معتبر نام بن چکا تھا لیکن ان کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایک دوست کے والد کے گھر کی بالائی منزل پر رہتے تھے اور اکثر اوقات گھر نہیں آتے کیونکہ مشاعرے رات بھر ہوتے وہاں ہی کھانا کھا لیتے ان کے دوست کا گھر انار کلی نیلا گنبد کے پاس تھا ناصر مجازی نیلا گنبد مسجد میں ہی نماز ادا کرتے جہاں آجکل شیلڈز اور ایوارڈز بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
دشمنوں کی محفل میں سازش ہو رہی تھی میرے قتل کی ہم اچانک پہنچے تو بولے ،یار تیری عمر لمبی ہے۔۔۔
تقریباً 1952میں محمد اختر ایک ماہنامہ رسالہ کے دفتر میں موجود تھے کہ اُن کے سر میں شدید درد محسوس ہوا انہوں نے اپنے دوست کو بتایا تو دوست نے ناجانے کون سی ہمدردی دکھائی کہ ان کو مارفیا کا انجکشن لگا دیا بہرحال سر درد تو ٹھیک ہو گیا لیکن مارفین ان کے خون میں شامل ہوگئی اور تناوردرخت بن گئی آپ جس گھر میں رہتے تھے ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی رہتا تھا اس کو دنیا بھر کے ہر نشے کی عادت تھی شروع میں تو آپ نشے سے بچے رہے لیکن بعد ازاں مارفین کا نشہ عروج پر پہنچ گیا اس کے ساتھ بھنگ،چرس بھی استعمال کرنے لگے کہا جاتا ہے کہ 1974میں جب انہیں فالج کا اٹیک ہوا تو مارفین اور چرس ہی سے علاج ممکن ہوا لیکن ان کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو گیا آپ نشہ کی حالت میں کبھی دکان کے تھڑے پر تو کبھی فٹ باتھ پر ہی کپڑا بچھا کر سو جاتے کپڑے پھٹے ہوئے اور ایک چادر کے ساتھ ان کا وفادار کتا ان کا سرمایہ تھا حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ نشہ کے لیے پیسے نا ہوتے تو اپنی غزلیں اور شاعری بیچ دیتے لوگ ان کو اپنے نام سے شائع کروالیتے جب کچھ لوگوں کو یہ علم ہوا تو دور دور سے ان کے پاس آتے اور شعر کے بدلے پیسے دے جاتے اور کچھ لوگ تو شاعری کے بدلے نشہ فراہم کر دیتے اب یہ حالت ہو چکی تھی کہ وہ نشے کی حالت میں بیٹھے بیٹھے سگریٹ کی خالی ڈبی پر شعر لکھتے اور وہاں ہی چھوڑ کر آگے نکل جاتے اور کچھ لوگ وہ کاغذ اٹھا کر اپنے نام سے شائع کروا لیتے۔
دائم آباد رہے گی یہ دنیا ہم نہ ہونگے کوئی ہم ساہوگا
محمد اختر کے اشعار کو اپنے نام سے شائع کرنے کے واقعہ کو پڑھ کر معروف براڈکاسٹر سید ندیم مقصود جعفری کا بتایا ہوا ایک قصہ یاد آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ” ہمارے استاد محترم نے ایک کتاب لکھی یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب ایک ہزار کتاب کی چھپائی کم از کم بیس ہزار میں ہوتی استاد محترم لاہور روانہ ہونے لگے تو میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا ندیم دعا کرنا کہ میری یہ کتاب کوئی اپنے نام سے شائع کروا لے تو میں نے دکھ بھری آواز میں پوچھا جی ماسٹر جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو ماسٹر جی نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا ہاں اگر یہ کتاب کوئی اپنے نام سے شائع کروا لے اور مجھے پیسے دے دے تو میں اپنی بیٹی کی شادی کا سامان خرید سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔لہٰذا وہ کتاب پچیس ہزار میں کسی شخص نے خرید کر اپنے نام سے شائع کروا لی”ندیم صاحب نے آخر میں روتے ہوئے کہا کہ مظہر صاحب آپ کو کیا بتائوں یہاں تو سب کچھ بکتا ہے۔
محمد اختر کا نشہ اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اس لیے اب وہ اسٹوڈیو اور دفاتر میں جانا چھوڑ چکے تھے ان کواب زندگی سے کوئی لگائو نہیں رہا تھا بس نشہ کرتے سگریٹ کی ڈبی پر شعر لکھ کر پھینک دیتے یہ ان کی زندگی رہ گئی تھی 1952میں جب جنرل ایوب خان برسراقتدار آئے تومحمد اختر نے ایک شعر لکھا “کیا جو صبر تو۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں ایوب ملا “صدر ایوب خاں کی نظر سے یہ شعر گزرا تو انہوں نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ جائو شاعر کو لے کر آئو میں ملنا چاہتا ہوں اہلکار دن بھر ڈھونڈتے رہے آخر سگریٹ کی ایک دکان پر نظر آئے تو ساتھ چلنے کو کہا لیکن وہ جانے کو تیار نہ تھے اہلکاروں نے کہا بھائی صدر تم سے ملنا چاہتا ہے اور تم انکار کر رہے ہو تو کافی دیر تکرار ہوتا رہا محمداختر نے کہا کہ ارے ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام یہ امیر لوگ ہمیں تین چار سو دے دیں گے اہلکار حیران ہوئے اب گرفتار کرنے کا بھی حکم نہ تھا تو آپ نے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور ایک شعر لکھ کر ان کو تھما دیا وہ شعر کچھ یوں تھا۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے ایک اور جگہ آتا ہے کہ شعر کچھ یوں تھا ہم سمجھتے ہیں ذوقِ سلطانی یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
آخر یہ چمکتا ہوا ستارہ جس کو کسی کی نظر لگ گئی وہ نشہ آور اشیا کھاتے کھاتے 19جولائی1974کو46سال کی عمر میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں فٹ پاتھ کے پاس دنیا سے کوچ کر گیا لیکن اپنا نام رہتی دنیا تک چھوڑ گیا۔
یاد رکھنا ہماری تُربت کو قرض ہے تم پر چار پھولوں کا
کہا جاتا ہے کہ محمد اختر کی وفات کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 19جولائی 1975کو اس کا وفادار کتا اسی جگہ پر فوت ہوا اب تک کالم میں شاعر کا اصل نام محمد اختر استعمال کرتارہا اور ان کا تخلص ناصر مجازی بھی بیان کر چکا ہوں جی قارئین آپ میں سے اکثر جان گئے ہوں گے کہ میری آج کی تحریر اس شاعر کے نام ہے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں، کتابوں میں زندہ ہے میری مراد محمد اختر ۔۔۔ساغر صدیقی ہے جی یہ ساغر صدیقی کی حالات زندگی تھی افسوس اتنے بڑے شاعر کو ہم نے گنوا دیا ساغر صدیقی کا انتقال انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہوا۔
زندہ تھے تو کسی نے نا پوچھا حالتِ جگر اب مر گئے ہیں تو مٹی میں دبانے آگئے ہیں
ساغر صدیقی کو لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں سپرد خاک کیا گیا لیکن سننے میں آتا ہے آپ کے جنازے میں کسی اعلیٰ شخصیت نے شرکت نہیں کی تھی معروف پاکستانی (فرانسیسی )مصنف جولیین کالوماؤ نے ساغر صدیقی کے حالات زندگی پر ایک مفصل کتاب بھی لکھی بقول ساغر صدیقی
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے