تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ آئیں قائد اعظم محمد علی جناح، ملت کے پاسبان کے دن کے موقعہ پر اپنے سیکولرز دوستوںکوقائد ہی کے کچھ پیغام سنائیں۔ شاید انہیں سیکولر بننے کی بجائے اپنے مسلمان ہونے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جیسے ہمارے قائد کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ مگر اس سے قبل سیکولر دوستوں سے کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ انگریز برصغیر میں دو سو سال تک حکمران رہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے سیکولر نظریات برصغیر کے لوگوں کے ذہن میں ڈالے۔ شاید یہی نظریات ہمارے پاکستانی سیکولرز حضرات تک آہستہ آہستہ نادنستہ پر نادانستہ طور پر، یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی پہنچ گئے۔ آئیں تھوڑی سی تحقیق کر لیں کہ یہ سیکولر نظریات ہیں کیا؟ برطانیہ میں عیسائی مذہبی پیشوائوں نے حکمرانوں پر گرفت اوراپنی برتری کے لیے، اپنی طرف سے اللہ کے نام سے، نئے نئے ناجائز احکامات دینے شروع کیے۔ اس پر برطانیہ میں مذہبی پیشیوائوں اور بادشاہ کے درمیان کشمکش چل پڑی، کہ حکومت کے معاملات میں مذہب کا دخل نہیں ہونا چاہیے یا نہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ مذہب لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ جس طرح چائیں اپنے مذہب پر عمل کریں مگر حکومت میںمداخلت نہ کریں۔ یہ کشمکش عرصہ تک چلتی رہی۔مذہبی پیشوا ہار گئے اور بادشاہ جیت گیا۔ مذہب کلیسا تک معدود ہو گیا۔ حکمران مسنداقتدارپر بیٹھ کرمن مانیاں کرنے لگے۔ یہی سیکولرزم کی تاریخ ہے۔جبکہ اسلام مذہب اور حکومت میں تفریق نہیں کرتا۔اسلام کے اسی پہلو کو شاعر اسلام ڈاکٹر علامہ شیخ محمد اقبال نے اس طرح بیان کیا:۔
جلا ل ِپادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو۔ ۔ ۔ ۔
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے جنگیزی
سیکرلرزم اختیار کرنے کے بعدیورپ مذہب اور ملت کی بنیاد پر شناخت کے بجائے قومیت پر انحصار کرنے لگا۔ ہٹلر ایک بڑا قوم پرست بن کر اُبھرا۔ جرمن قوم کو اعلیٰ قرار دے کر یورپ کو قومیت کی بنیا دپر فتح کرنے لگا۔ یہ قومیت ہی کے شاخسانے تھے کہ قومیت کی بنیاد پر یورپ میں آپس میں ہم مذہبی لوگوں میں جنگیںہوئیں۔ جنگ عظیم میںکروڑوں لوگ مارے گئے۔ آج تک یورپی اس دور کو ڈارک(سیاہ) دور سے یاد کرتے ہیں۔ یورپی قومیت کے ملکی قومیت کے مقابلے میں اسلامی قومی ملت کا تصور پیش کرتا ہے۔اسلام کی اس مخصوص خاصیت کو علامہ شیخ محمداقبال نے اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا:۔
اپنے ملت پہ قیاس ا قوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولۖ ہاشمی۔۔
یہ پیغامات قائد نے تحریک پاکستان کے دوران اپنی ملت کو اکٹھا کرنے کے دنوں میں سنائے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ہنددئوں اور انگریزوں، دونوں نے مسلمانوں کو اپنا زیر نگین رکھنے کی مہم شروع کی ہوئی تھی۔ انگریز کہتے تھے کہ برصغیر کے لوگوں کی نمائندگی کے لیے صرف کانگریس ہے۔ ہندو کہتے تھے کہ قومیں ملکوں سے بنتی ہیں۔ برصغیر کے لوگ ایک قوم ہیں ۔جبکہ علامہ اقبال جنہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا۔ وہ ہندوئوں اور انگریزوں کے ملکی قومیت کے فلسفہ کے مقابلے اسلام کے ملت کے تصورکو پیش کیا۔
بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے برصغیر میں انگریزوں اورہنددئوں کے سامنے ملت کے اس تصور کو تسلسل سے پیش کیا۔ دونوں کو شکست فاش دے کر ، خاص کرہنددئوں کے سیکورزم کے نظریہ کو، اسلام کے نام پر اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل کیا۔ جو آج ایک ایٹمی اور میزائل قوت ہے۔ قائد نے اسی سلسلے میں، مسلم لیگ کراچی ١٩٤٣ء کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا”وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ کونسی چٹان ہے جس پر اُن کی ملت کی عمارت استوار ہے۔وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟وہ رشتہ، وہ چٹان،وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم بڑھتے جائیں گے۔ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ایک رسولۖ،ایک کتاب،ایک امت” ۔۔۔قائد نے مسلم لیگ کانفرنس بمبئی ٢٦ مئی ١٩٤٠ء میں مسلم ملت کے تصور کو بیان کرتے ہوئے کہا”گاندھی جی کہتے ہیں ہندوستان کو جیتے جی ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے۔راج گوپال اچاریہ کہتے ہیں بچے کے دو ٹکڑے کیے جا رہے ہیں۔( میں کہتا ہوں) قدرت نے پہلے ہی سے ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اوراس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں۔ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے سے موجود ہیںنہ معلوم اس کے متعلق اتنا واویلا کیوں کیا جا تا ہے۔ ۔۔ہنددئوںکو مخاطب کرتے ہوئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ٢نومبر ١٩٤١ء کو قائد کہتے ہیں”یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تقریباً ایک ہزار سال سے ہنددئوں نے ملک کے کسی حصے پر حکومت نہیں کی۔ہماری تجویز کی رُو سے ہندوستان تین چوتھائی ہندوئوں کو دیا جا رہا ہے۔جہاں وہ اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں۔
میں نے ان سے اپیل کی، کہ وہ حریص نہ بنیں ، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہیر پھیر سے سارے ملک کو ہتھیا لینا چاہتے ہیں۔میں کہتا ہوں تین چوتھائی لے لو اور میری ایک چوتھائی پر حسد نہ کرو۔مجھے اپنی اسلامی تاریخ کی روشنی میں اپنی روایات، اپنی ثقافت اور اپنی زبان کوبرقرار رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے دو اور تم بھی اپنے صوبوں میں یہ کرو”۔۔۔ انگریزوں کو للکارتے ہوئے ،قائد یکم جولائی ١٩٤٢ء کو ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ کو بیان میں فرماتے ہیں۔”ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔زبان و ادب،فون لطیفہ۔ فن و تعمیر،نام و نسب، شعور اقتدارو تناسب، قانون،رسم رواج،تاریخ و روایات اورروجحان ومقاصد ہر لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویہ نگاہ اور فلسفہ حیات ہے۔بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف ہماری قومیت کو سلامی دینے کے لیے تیار ہے”۔۔۔’
قائد نے ہندوئوں کی قومی لیڈر مہاتما گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے ، آل انڈیامسلم لیگ لاہور کے اجلاس منعقدہ ٢٣ مارچ ١٩٤٠ء میں کہا”میں کئی بار کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوںکہ جناب گاندھی دیانت داری سے تسلیم کرلیں کہ کانگرس ہندو جماعت ہے اور وہ صرف ہنددئوں کی نمائندہ ہیں۔جناب گاندھی کیوں یہ بات فخر سے نہیں کہتے کہ”میں ہندو ہوں اور کانگرس کو ہنددئوں کی حمایت حاصل ہے” مجھے تو یہ کہنے میں کہ” میںمسلمان ہوں شرم محسوس نہیں ہوتی”۔۔۔ مسلم ملت کے تصور میں منطق تھی کہ مسلمانوں کو ہنددئوں اور انگریزوں کے تسلط سے نجات دلائی جائے۔ انگریزوں نے برصغیر کا اقتدار مسلمانوں سے سازش کے تحت چھینا تھا۔ وہ مغلوں کے دور میں تجارت کی اجازت لے کر برصغیر میں داخل ہوئے تھے۔پھر رفتہ رفتہ قابض ہوتے گئے۔انہیں اس بات کا خدشہ کی کہیں مسلمان دوبارہ اتحاد اور اتفاق کر کے اقتدار ہم سے چھین نہ لیں۔ اس لیے انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہنددئوں کو آگے آگے رکھا اور مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کی۔ مگر یہ اسلام کاطاقت ور نظریہ تھا جس کی بنیاد پر قائد ِ محترم نے ہندوئوں اور انگریزوں کو شکست دے کر، پاکستان کاطلب کیا” لا الہ الا اللہ ”کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا نہ کہ سیکورزم کے نام پر۔سیکولر حضرات سے درخواست کہ وہ قائد کو سیکولر ثابت کرنے میں اپنا وقت ضائع نے کریں قائد کے چاہنے والے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ملت کے پاسبان قائد کے دن کے موقعہ پر سیکولر حضرات کے لیے یہی پیغام ہے۔