تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ماہ ربیع الاول کو پو ری کا ئنات اور بالخصوص عالم اسلام میں مقدس اور خاص مہینہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اِسی ماہ میں نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سرتاج الانبیا ء محبوب خدا ۖ نے جنم لیا ‘سرور دو عالم ۖ جنہوں نے دنیا میں موجود با طل نظاموں اور با دشاہت کے درباروں محلات میں دراڑیں ڈال دیں ‘صدیوں سے انسان کو انسان کی غلامی کے شکنجے سے نکال کر استحصالی قوتوں کو پاش پاش کر دیا ‘ہزاروں سالوں سے سسکتی تڑپتی مرض الموت میں مبتلا انسانیت کو خوشگوار حقیقی انقلاب کی نوید سنا ئی ‘آقائے دو جہاں ۖ نے انسانی حقوق کا ایسا چارٹر پیش کیا جس کے سامنے مغرب کا نام نہاد مصنوعی میگنا کا رٹا کچھ بھی معنی نہیں رکھتا ‘اقوام متحدہ کا منشور جس پر آج کی نام نہاد مہذب دنیا بہت فخر کر تی ہے جو آقا کریم ۖ کی نبوت کے چودہ سو سال بعد مرتب ہوا اُس جا معیت سے آج بھی خالی ہے جس کا اعلان سردار الانبیاء ۖ نے قصوٰ ی نامی اونٹنی پر بیٹھ کر ڈیڑھ لاکھ کے مجسمے کے سامنے کیا تھا ‘سرور دو جہاں ۖ کا پیغام روشنی کی کرن بن کر سینہ شب میں اُترتا چلا گیا ‘سرور کائنات ۖ نے اللہ تعالی کے پیغام کو پہنچانے کے لیے کسی رکاوٹ کا بھی خیال نہیں کیا ‘کوئی مشکل کو مصیبت کو آزمائش کسی قسم کا لالچ آپ ۖ کا راستہ نہ روک سکا ‘نہ شعب ابی طالب کے فاقے ‘نہ طائف کی سنگ با ری ‘نہ ہی قریش ِ مکہ کی پر کشش پیشکش ‘مالک دو جہاں نے سب سے پہلے خو د کو مثالی کردار کے طور پر پیش کیا ‘پیغام حق کو پہلے اپنی ذات پر نافذ کیا پھر لوگوں کے سامنے اللہ کا کلام رکھا ‘کلام الٰہی کا عملی نمونہ بھی پیار محبت ایثار قربانی غم گساری اور ہمدردی آپ ۖ کی تبلیغ کے بنیا دی اجزا تھے ‘قریش مکہ کے مظالم جب حدوں سے گزر گئے تو خالقِ ارض و سما کے حکم پر ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔
لیکن جب کفار نے آپ ۖ کو مدینہ منورہ میں چین سے نہ رہنے دیا اور معرکہ آرائی اور تلوار زنی پر تل گئے اور اونٹوں ‘گھوڑوں ‘تلواروں ‘نیزوں اور اسلحہ سے لیس لشکر جرار لے کر حملہ آور ہو ئے تو آپ ۖ نے علم جہاد بلند کیا اور پھر تاریخ انسانی کی تا ریخ بدل دی اور بدر سے حنین تک داستان جہاد کی نو عیت صرف اپنا دفاع اور پیغام حق کی سر بلندی تھی ۔ شہنشاہِ دو عالم ۖ جب مکہ میں تشریف لا ئے تو اُس وقت انسانیت مرض الموت میں مبتلا اپنے مسیحا کے انتظار میں تھی زندگی اپنے شباب کے انتظا ر میں تھی ‘یو نان جیسی عظیم تہذیب کھنڈر میں تبدیل ہو چکی تھی ‘اہل یو نان اپنے علم کے زعم کے با وجود کرا ہ رہے تھے ‘یو نانی حکماء نے اپنے علم و دانش اور فلسفہ کے زور پر ہر مسئلہ حل کر نا چاہا ایک سے بڑھ کر ایک یو نانی فلسفی آچکے تھے ۔ اقلیدس، بطلیحوس ، سقراط ، بقرالط ، ارسطو ، افلاطون ، جدھر نظر اٹھی فلسفوں کی قطاریں نظر آئیں اِن تمام فلسفیوں کے دماغوں نے بھی کا ئنات کے اندھیرے دو ر کر نے کی بجا ئے ان کو اور زیادہ تا ریک کر دیا۔
یو نانی اکیڈمیوں نے اندھیرا کم کر نے کی بجائے اُسے اور گہرا کر دیا ‘کر ہ ارض اجا لے سے نور سے روشن ہو ئی تو غارِ حرا کے گو شے سے طلوع ہو نے آفتاب نبوت سے قیصر فارس کی حکومتیں بھی انسانیت کی پیٹھ پر بو جھ میں اضافے کا ہی با عث بنیں’۔ انسانیت کو بو جھ اور دکھوں سے کسی نے آکر نجات دی تو یتیم مکہ نے ‘دکھی انسانیت کو اماں ملی تو کالی کملی والے ۖ کی آغوش میں با دشاہوں کی وسیع و عریض سلنطیں اپنے با شندوں کے لیے آہنی شکنجے بن چکیں تھیں جبکہ یتیم مکہ کی چھوٹی سے کو ٹھڑی دنیا بھر کے بے بسوں مجبوروں مظلوموں کے اپنے اندر اخلاقی وسعتیں رکھتی تھی دنیا کے چپے چپے میں مظلوم کا لی کملی والے ۖ کی ممتا جی آغوش میں سماتے گئے ۔ حبش سے آنے والے ‘روم سے آنے والے ‘فارس سے آنے والے اور بخد سے آنے والے آتے گئے سما تے گئے کالی کملی والے ۖ کی ممتا جی آغوش میں بُحر بر سمٹ گئے بلا شبہ موجودہ دور سائنسی ایجادات کا دور ہے۔
Life
انسان نے اپنے آرا م کے لیے بے شمار مشینیں ایجاد کر لی ہیں زندگی کو بہت پر تعیش بنا لیا ہے لیکن پھر بھی ہر آن پھیلتی ہو ئی کا ئنات میں تنگی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے سائنس کی بے پنا ہ ترقی کے با وجود دم گھٹنے لگا ہے آسمانی وسعتوں مشتری و مریخ کو سر کر نے کے زعم میں حضرت انسان اپنے نفس کی غلامی سے آج تک آزاد نہ ہو سکا انسان انسانیت سے دور اور جانور کے قریب ہو تا جا رہا ہے انسان کو اِس کر ہ ارض پر سب سے زیا دہ خو ف اگر ہے تو انسان سے ہی دنیا بھی میں لا کھوں لوگ اگر موت کے گھاٹ اتا رے جا تے ہیں تو با ہمی نفرتوں میں ایک دوسرے کو زیر کر نے میں دوسروں کو غلام بنا نے میں اپنی انا اور طا قت کا اظہار کر نے میں انسان جیسے جیسے محمد عربی ۖ کے پیغام سے دور ہو تا جا ئے گا وہ اپنی اصل کو بھی کھو یا جا ئے گا مولانا احمد رضا بریلوی نے کیا خو ب کہا ہے۔ ٹھو کریں کھا تے پھر و گے ان کے در پر پڑے رہو قافلہ تو اے رضا اول گیا آخر گیا
آج اگر اہل اسلام بھی حقیقی خو شیوں سے ہمکنار نہیں تو اُس کی وجہ بھی آقا کریم ۖ کی تعلیمات سے دوری ہے اور مغرب نوا زی کا شوق ہم یہ بھو ل جا تے ہیں کہ جس کلمہ اور کتاب نے اوس اور خزاج جیسے خو ن کے پیا سے قبیلوں کو محبت کی سنہری زنجیر میں با ندھ دیا تھا اُس کلمہ اور قرآن پر ایمان رکھنے وا لے آج ایک دوسرے کو اسلام علیکم کہنے کے روا دارنہیں ‘ہر ایک نے اپنے ہا تھ میں ترازو پکڑ رکھا ہے اور دوسرے کو کا فر کہنے کا لا ئسنس لے رکھا ہے ایک فرقے کا امام دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں سمجھتا سالوں سے نفرت کی بو ئی ہو ئی یہ فصل اب جوان ہو چکی ہے نفرت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مخا لف فرقے کی مسجد اور نمازیوں پر اُس وقت گو لیوں کی برسات کر دی جب وہ لوگ خدا ئے بزرگ و برتر کے سامنے ہا تھ باندھے نماز پڑھ رہے تھے ‘پچھلے کئی سالوں سے ایسے بے شمار ہو لناک واقعات ہو چکے ہیں جب سجدہ گا ہوں کو خون ساجدین سے سرخ کر دیا گیا۔
آخر ہم کب تک خو ن کی ہو لی کھیلتے رہیں گے کب تک دوسروں کا مذہب کے نام پر قتل عام کر تے رہیں گے ہما رے آقا کریم کا فرمان ہے کہ ایک مومن کا قتل پو ری انسانیت کا قتل ہے اور ہم تو یہاں پر ہزاروں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اگر عالم اسلام اور اہل دنیا حقیقی امن اور بھائی چارہ چاہتے ہیں تو محمد عربی کے پیغام حق کی طرف آنا ہو گا کیونکہ وہ کون سا نظام ہے جو دنیا نے آزما کر نہیں دیکھا وہ کون سا طرز حیات ہے جو کامیاب ہو اہے اِن تمام نظاموں کو اپنا نے کے بعد اہل دنیا کو ملا کیا انسانیت کے بے قدری ایک دوسرے سے نفرت برہمی ظلم و جبر دوسروں کو غلام بنا نے کی خوا ہش انسانی دنیا اگر اِس کر ہ ارض پر حقیقی امن اور بھا ئی چارہ چاہتی ہے تا کہ وہ مزید ٹھوکروں سے بچ جا ئے تو اُسے غلامی رسول میں آنا ہی ہو گا ‘محمد عربی کے پیغام کو اپنا نا ہی ہو گا کیونکہ آقا کریم کی غلامی کی گلی میں بستر لگا نے والے بھی شان قصری رکھتے ہیں آقا کریم انسانیت کی آبرو بڑھاتے آئے ہیں انسان کو اس کا اصل مقام اور آبرو اُسی وقت ملے گی جب وہ محمد عربی کے پیغام کو حقیقی معنوں میں اپنا لے گا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956