ذکر آمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

Quran

Quran

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید پارہ نمبر 7، سورہ نسائ، آیت نمبر 174 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نہایت واضح دلیل آ گئی۔”
اس آیت مبارکہ میں یہ نہیں فرمایا: اے مکہ والو! یا اے عرب والو! بلکہ فرمایا اے لوگو! اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت عامہ کی طرف واضح اشارہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کسی خاص شہر یا قبیلہ یا نسل کے لئے نہیں بلکہ آپ قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے رسول ہیں۔ بلکہ دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسانوں کے علاوہ دیگر تمام مخلوقات کے بھی نبی ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم” کتاب المساجد ومواضع الصلوٰة، باب الاول، حدیث نمبر 812 میں ہے: ”مجھے ساری کی ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔” یہی وجہ ہے کہ درختوں اور پتھروں نے بھی آپ کا کلمہ پڑھا ہے اور آپ کی بارگاہ میں سلام عرض کیا ہے۔

آیت بالا میں برھان سے مراد کیا؟ امام راغب اصفہانی مفردات میں فرماتے ہیں: ”برھان برہ سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے سفید ہوا۔ اور ”برھان مضبوط ترین دلیل کو کہتے ہیں۔” اور منطقیوں کے نزدیک برھان اس دلیل کو کہتے ہیں جس کے تمام مقدمات (اجزاء دلیل) قطعی اور یقینی ہوں۔ اور حافظ ابن کثیر دمشقی تفسیر ابن کثیر میں برھان کے تحت لکھتے ہیں: ”یعنی وہ دلیل جس کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے اور جو ہر قسم کے شبہوں کو جڑ سے اکھاڑ دے۔” لہذا برھان وہ نہایت واضح اور مضبوط ترین دلیل ہے جو دعویٰ کو ثابت کردے اور اس سلسلہ میں کوئی شبہ یا عذر باقی نہ چھوڑے۔ اور دلیل کا لغوی معنی ہے کسی چیز کا ایسی حالت میں ہونا کہ اس سے دوسری چیز کا علم حاصل ہو جائے ۔ جیسے دھوپ سے سورج کے طلوع ہونے کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔

یہ تو تھا برہان اور دلیل کا معنی اب برہان سے یہاں کیا مراد ہے اس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیں: صحابی رسول سید المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی تفسیر میں، علامہ علاؤ الدین محمد بغدادی تفسیر خازن میں، امام جلال الدین سیوطی تفسیر جلالین میں، اور امام قرطبی تفسیر قرطبی میں برھان کے تحت فرماتے ہیں: ”برھان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیوں برھان ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ جس طرح دعویٰ دلیل سے ثابت ہوتا ہے اسی طرح ذات و صفات باری تعالیٰ اور دیگر عقائد اسلامیہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات و صفات اور کمالات کے ذریعے ثابت ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس غیر مسلم نے بھی اسلام کو قبول کیا اس نے خدا کو نہیں دیکھا بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی ذات وصفات کو دیکھ کر پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متاثر ہوا آپ پر ایمان لایا اور پھر آپ سے ذات و صفات رب تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ سنا اس پر آپ کے واسطے سے ایمان لایا۔ گویا عقیدہ توحید اور دیگر عقائد اسلامیہ دعوے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان پر روشن دلیل ہیں۔ امام بوصیری رحمة اللہ علیہ نے کیا ہی خوب کہا:
من ھو الایة الکبٰری لمعتبر
ومن ھو النعمة العظمٰی لمغتنم

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے برھان اسلام ہونے کی لا تعداد حیثیتیں ہیں جن میں سے چند ایک کو نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم برہان ہیں ذاتی محاسن کے اعتبار سے۔ وہ اس طرح کہ آپ کے جسم مبارک بلکہ پسینہ خون پیشاب اور دیگر فضلات سے بے نظیر خوشبو کا برآمد ہونا… آپ کے جسم مبارک سے عجیب و غریب برکات کا ظہور… آپ کے دانتوں سے مسکراتے وقت نور کا نکلنا اور دیواروں سے ٹکرا کر چمکنا… اور مسکراتے وقت آپ کے چہرۂ انور کا شیشہ کی مانند ہو جانا کہ چہرہ والضحی میں سے اشیاء کی صورتیں نظر آنے لگتیں… یہ سب باتیں آپ کے برھان ہونے کی روشن علامتیں ہیں… یہی وجہ ہے کہ یہود کے سب سے بڑے عالم عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ”آیة اللّٰہ الکبٰری” حضرت محمدۖ کا چہرہ پر انوار دیکھتے ہی اسلام قبول کر لیتے ہیں… اور فرماتے ہیں: ”جب میں نے آپ کا چہرہ اقدس دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔” (حوالہ کیلئے سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ۔)

Mohammad (PBUH)

Mohammad (PBUH)

2۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبرہان ہیں معجزات کی رو سے۔ وہ اس طرح کہ ہمارے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکو خدا تعالیٰ نے نہ صرف پہلے تمام انبیاء کے تمام معجزات عطا کئے ہیں بلکہ اس پر مستزاد لا تعداد معجزات عطا کئے ہیں۔ آپ کے معجزات صرف عناصر ارضیہ، جمادات، نباتات اور حیوانات تک محدود نہیں بلکہ سماوی امور میں بھی آپ کو معجزات عطا فرمائے اور آپ کے بے شمار معجزات وہ بھی ہیں جنہیں بڑی بڑی جماعتوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جیسے چاند کے دو ٹکڑے کرنا ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لانا اپنی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کردینا وغیرہا۔ یقینًا آپ اپنے معجزات کی رو سے بھی برھان اسلام ہیں اور خلق کثیر نے آپ کے معجزات دیکھ کر اسلام قبول کیا ہے۔

3۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم برہان ہیں سچی پیشین گوئیوں کی بنا پر۔ وہ اس طرح کہ بڑے بڑے سائنسدانوں کی سب پیشین گوئیاں سچی ثابت نہیں ہو تیں لیکن پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سینکڑوں ہزاروں پیشین گوئیاں سب کی سب سچی ثابت ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ صحیح مسلم، سنن نسائی اور دیگر کتب میں ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نبی علیہ السلام (غزوہ بدر سے ایک روز پہلے 16رمضان کو) ہمیں کفار کی قتل گاہیں دکھا رہے تھے اور فرما رہے تھے کل یہ فلاں کافر کے مرکر گرنے کی جگہ ہے۔” صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے ان مقامات کو دیکھا تو: ”ان کفار میں سے ایک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ سے مقرر کردہ جگہ سے ہٹ کر نہیں پڑا ہوا تھا ۔” آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ان پیشین گوئیوں کی بنا پر بھی برھان اسلام ہیں کہ بے شمار لوگ آپ کی پیشین گوئیوں کے سچ ثابت ہونے پر ایمان لائے۔

4۔ آپ برہان ہیں کہ کسی سے نہ پڑھنے کے باوجود بے مثل ضابطہ حیات پیش کیا۔ وہ اس طرح کہ دنیا میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں نے بڑی بڑی اسمبلیوں اور کمیٹیوں کی صورت میں نظام حیات اور قوانین ریاست مرتب کئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں قسم قسم کے نقائص کے ساتھ ہزاروں مسائل کے بارے میں تشنگی باقی ہے۔ لیکن حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی استاذ سے تعلیم حاصل کیے بغیر ایک ایسا کامل و اکمل نظام حیات پیش کیا جس میں تمام جسمانی اور روحانی مسائل کا حل موجود ہے۔ اور انفرادی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک مکمل رہنمائی کرتا ہے اور صرف دنیا نہیں بلکہ دارآخرت کی فلاح کا بھی ضامن ہے۔ تو کیا یہ کمال نبوی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے برہان ہونے کے لئے کافی نہیں؟

5۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم برہان ہیں کہ آپ قول وعمل کے تضاد اور گناہوں سے معصوم ھیں۔ وہ اس طرح کہ غیر مسلم دنیا میں بڑے بڑے دانشور اور رہنما گزرے ہیں لیکن ان میں قول و عمل کے تضادات دیکھے گئے اور غیر مسلموں میں کوئی بھی ہستی ایسی نظر نہیں آتی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہو کہ وہ انسانی کمزوریوں سے پاک تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی میں قول و عمل کا ایک بھی تضاد آج تک آپ کے دشمن انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے باوجود ثابت نہیں کر سکے۔ اور ہمارا چیلنج ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گناہوں سے معصوم ہیں۔ معصوم ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ سے گناہ ممکن ہی نہیں۔

6۔ آپ برہان ہیں کہ جامع الاخلاق ہیں۔ وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام سابق انبیاء کرام کے معجزات اور علوم و معارف کا مجموعہ ہونے کی طرح تمام انبیاء کرام کے اخلاق و شمائل کا بھی مجموعہ ہیں بلکہ آپ ہی کا کمال اور خاصہ ہے کہ آپ تمام اخلاق مرضیہ میں تمام مخلوقات میں ممتاز ہیں۔ در اصل آپ نے اخلاق عالیہ کسی مخلوق سے نہیں سیکھے بلکہ اللہ نے آپ کو سکھائے ہیں۔ فیض القدیر، جز نمبر 1، صفحہ نمبر 225، طبع مصر میں حدیث مبارک ہے: ”میرے رب نے مجھے خود آداب ومکارم کی تعلیم دی اور خوب خوب مجھے آداب سکھائے۔” اور ہم دیکھتے ہیں زمانہ قدیم میں اور آج بھی بے شمار غیر مسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے اخلاق عالیہ کی عظمت سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔ تو کیوں نہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اخلاق عالیہ کی بنا پر بھی برھان اسلام ہیں۔

7۔ آپ برہان ھیں کہ بظاہر کسی سے پڑھے بغیر علوم و معارف کا سمندر بے کنار ہیں۔ وہ اس برح کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکسی استاذ کے پاس پڑھنے کیلئے نہیں گئے۔ لیکن آپ کا کلام جسے حدیث نبوی کہا جاتا ہے فصاحت وبلاغت کی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے ۔ اور معانی ومطالب کے لحاظ سے علوم و معارف اور حکمتوں کا بے مثل خزانہ ہے۔ اور تمام علوم و فنون جدیدہ میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم آپ کی جامع الکلام اور آپ کے علوم و معارف سے متاثر ہوکر بھی مسلمان ہوئے ہیں۔ لہذا آپ اپنے علوم و معارف کی بنا پر بھی برہان ہیں۔

Allah

Allah

8۔ آپ برہان ہیں کہ وفات کے بعد بھی آپ کے کمالات کا ظہور جاری ہے۔ وہ اس طرح
کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے رحلت فرما جانے کے باوجود اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اور اپنی حیات طیبہ کی طرح اپنی امت کی مکمل سرپرستی فرما رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے خزانوں کو تقسیم فرما رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بے شمار صحابہ کرام اور صلحاء امت کے مشاہدات و مکاشفات اور رویاء صالحہ کے حوالے موجود ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد بھی اپنے غلاموں کو نوازا اور بے حد نوازا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی قبر انور پر حاضر ہوکر اور دور دراز کے علاقوں میں اپنی مشکلات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں ایسے ہی پیش کرتے جیسا کہ آپ کی حیات ظاہرہ میں پیش کرتے تھے۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لطف و کرم سے بہرہ ور ہوتے تھے۔ اور کتب حدیث شریف ”مجمع الزوائد” اور ”البحر الزخائر” میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے: ”اور میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے، مجھ پر تمہارے اعمال پیش کئے جائیں گے، پس میں اچھے اعمال پر اللہ کی حمد بیان کروں گا اور برے اعمال پر تمہارے لئے مغفرت کی دعا کروں گا۔” (تفصیلات کیلئے مجمع الزوائد، باب ما یحصل لامتہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من استغفارہ بعد وفاتہ، جلد: 9، صفحہ: 24، طبع قاہرہ۔

9۔ آپ برہان ہیں کہ آپ پر نازل شدہ کتاب دائمی معجزہ ہے۔ وہ اس طرح کہ قرآن مجید کا ہمیشہ سے روئے زمین کے غیر مسلموں کو چیلنج ہے کہ وہ اس قرآن کی کم از کم ایک چھوٹی سی چھوٹی سورت کی مثل کلام پیش کریں، جو فصاحت و بلاغت جامعیت ومعنویت، لطافت و شیرینی، حسن نظم و تالیف، اسلوب بیان اور دیگر کمالات میں قرآنی سورت کی مثل ہو۔ لیکن آج تک روئے زمین کے کفار ایسا نہیں کر سکے اور قرآن کریم کا چیلنج ہے کہ کفار قیامت تک ایسا نہیں کر سکیں گے۔ الحمد للہ! آج سے چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی ان پڑھ سے ان پڑھ مسلمان دنیا کے بڑے سے بڑے پڑھے لکھے غیر مسلم کو یہی چیلنج کرکے مبہوت و لاجواب کرکے اسلام کی عظمت و سچائی کو ثابت کر سکتا ہے۔

10۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم برہان ہیں کہ آپ پر ملائکہ کا نزول دیکھا گیا۔ وہ اس طرح کہ بار ہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی اجنبی یا کسی معروف صحابی کی صورت میں جبریل امین کو آپ کے پاس آتے ہوئے دیکھا اور صحابہ کرام نے خود یقین کیا کہ یہ شخص یقینًا فرشتہ تھا۔ صحیح مسلم کتاب الجہاد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جنگ بدر میں ایک غیبی آواز: ”اے حیزوم! آگے بڑھو!” سنی گئی۔ سنن سعید بن منصور کتاب جامع الشہادات میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ جبریل امین کی آواز تھی اور حیزوم ان کے گھوڑے کا نام ہے۔” اسی طرح وحی کے نزول کے وقت سخت سردی کے موسم میں آپ کے جسم مبارک کا پسینہ سے شرابور ہو جانا اور آپ کے جسم مبارک کا وزن بڑھ جانا کہ اونٹ پر سوار ہونے کی صورت میں بھی اونٹ کھڑا رہنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ اور اس قسم کے واقعات کو صحابہ کرام نے بڑی بڑی جماعتوں کی صورت میں دیکھا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی صداقت عقلی طور پر بھی ثابت ہوتی ہے اور آپ اس اعتبار سے بھی برھان ہیں کہ آپ پر ملائکہ اور وحی کا نزول عام لوگوں نے دیکھا۔اس کے علاوہ بھی آپ کے برھان ہونے کے سینکڑوں وجوہ ہیں جنہیں اختصار کے پیش نظر ترک کیا جا رہا ہے۔

الغرض اسلام دعویٰ ہے مدعی خود اللہ تعالیٰ ہے اور دلیل جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور مدعی علیہ کفار ہیں۔ اور چونکہ ہر مدعی اپنی دلیل کو مضبوط کرتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان و عظمت کی حد فرما دی ہے… آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت… آپ کی نا فرمانی کو اپنی نا فرمانی… آپ کی گستاخی کو اپنی گستاخی… آپ کے پکڑنے کو اپنا پکڑنا… آپ کے کلام کو اپنی وحی… آپ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا ہے… اور آپ کی تعلیم کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے… اور اللہ نے قرآن مجید، پارہ: 5، سورہ نسائ، آیت نمبر 113 میں ارشاد فرمایا: ”اے پیارے حبیب آپ کو رب تعالیٰ نے ہر اس چیز کا علم دیا ہے جس کا علم آپ کو پہلے نہ تھا۔” اور قرآن مجید” سورہ کوثر، پارہ نمبر 30 آیت نمبر 1 میں فرمایا: ”بیشک ہم نے آپ کو بہت ہی زیادہ (خیر کثیر) عطا فرما دیا ہے۔”

جبکہ کفار نے ہمیشہ دلیل اسلام کو کمزور کرنا چاہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنقیص و توہین کی ہے۔ لہذا قرآن مجید سورہ صف، پارہ نمبر 28، آیت نمبر 14 میں ارشاد باری ”تم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہو جائو۔” کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے۔ اور کون کفار کا، جو اللہ تعالیٰ کی دلیل جناب محمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت وشان کو ثابت کرتا ہے وہ حزب اللہ میں سے ہے اور جو خدا کی دلیل کی تنقیص کرتا ہے وہ حزب الشیطان میں سے ہے۔

اس آیت میں ”جائکم رسول” کے لفظ موجود ہیں جبکہ محفل میلاد اسی اجتماع کو کہتے ہیں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی دنیا میں تشریف آوری اور آپ کے فضائل وکمالات کا ذکر کیا جائے۔ لہذا واضح ہوا کہ اس آیت پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی دنیا میں آمد اور آپکی عظمتِ شان کا ذکر فرمایا ہے، لہذا میلاد بیان کرنا سنت اللہ ٹھہرا۔

Peer Mohammad Afzal Qadri

Peer Mohammad Afzal Qadri

تحریر: استاذ العلماء پیر محمد افضل قادری، گجرات
0333-8403748