تحریر : چوہدری غلام غوث شہزادے کا اصل نام روشن اختر تھا وہ شاہ جہاں حجستہ اختر کا بیٹا اور شاہ عالم بہادر شاہ اوًل کاپوتا تھا ۔سید برادران نے اسے جیل سے رہا کروایا اور 17 ستمبر1719 ء کو تخت پر بٹھا دیا اس نے اپنے لیے ناصرالدین محمد شاہ کا لقب پسند کیا لیکن تاریخ نے اسے محمد شاہ رنگیلا کا نام دے دیا۔ محمد شاہ رنگیلا ایک عیاش طبع غیر متوازن شخصیت کا مالک تھا چوبیس گھنٹے شراب میںدُھت رہتا رقص و سرور اور فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا وہ کبھی کبھی دربار میں ننگا آ جاتا تو اُس کی اطاعت میں تمام درباری کپڑے اُتار دیتے وہ کبھی تمام وزراء کو زنانہ کپڑے پہن کر دربار میں آنے کا حکم جاری کر دیتا اُس نے اپنے گھوڑے کو وزیرِ مملکت کا درجہ دے رکھا تھا۔ وہ قانون بنانے اور قانون توڑنے کے خبط میں بھی مبتلا تھا وہ طوائفوں کے ساتھ دربار میں آتا اِن کے ساتھ برہنہ لیٹ جاتا اور اسی حالت میں دربار میں ہی پیشاب کر دیتا۔ قاضی شہر کو شراب سے وضو کرنے پر مجبور کرتا اس کا قول تھا ہندوستان کی ہر خوبصورت عورت بادشاہ کی امانت ہے۔ محمد شاہ رنگیلا کثرتِ شراب نوشی کے باعث 26 اپریل 1748 ء کو انتقال کر گیا۔ یہ محمد شاہ رنگیلے کی شخصیت کا ایک رُخ تھا جس میں اُس کی طبیعت کی رنگینی مشہور ہے اُس کا دوسرا رُخ خواجہ نظام الدین اولیاء سے خاص وابستگی تھی ملاحظہ کریں محمد شاہ رنگیلا اپنی والدہ کے ساتھ خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے مزار پر حاضری کے لیے حاضر تھا۔
اُس کی والدہ کو محبوب الٰہی سے خاص عقیدت تھی اس وقت محمد شاہ رنگیلا کی عمر 7 برس تھی مگر عقیدت کی حالت یہ تھی کہ سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا اسی عالم میں نیند کی آغوش نے آ لیا تھوڑی دیر کے بعد گھبرا کر آنکھ کھُلی اپنی ماں کو آواز دی ماں نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے کہنے لگا اماں حضور یہ جو چاول کے دانے میرے ہاتھ میں ہیں جانتی ہو کہاں سے آئے ہیں والدہ نے نفی میں سر ہلایا کہنے لگا میں نے خواب میں محبوب الٰہی کی زیارت کی ہے محبوب الٰہی اپنے عقیدت مندوں کے درمیان جلوہ افروز تھے میں بھی ایک کونے میں بیٹھ گیا آپ نے کسی کو اقبال کہہ کر آواز دی اور کہا دیکھو ہماری محفل میں مغلوں کا لڑکا بیٹھا ہے اسے بھی کچھ دے دو آواز آئی حضور دیگیں خالی ہیں فرمایا اس کو کھرچن ہی لا کر دے دوتو اُس نے میرے ہاتھ پر یہ چند دانے لا کر رکھ دیئے اور کہا حضور صرف یہی بچا ہے دیکھیئے چاول اب بھی میرے ہاتھ میں ہیں ماں بڑی سمجھدار اور صاحبِ بصیرت خاتون تھی اُس نے دربار کے متولی سے خواب بیان کیا تو اُس نے تصدیق کر دی کہ وہ محبوب الٰہی تھے اقبال آپ کے داروغہ مال کا نام تھا بچہ ٹھیک کہتا ہے چاول کے سات دانے کا مطلب ہے کہ رنگیلا کے بعد برائے نام مغلوں کے سات بادشاہ گذریں گے اور ٹھیک اسی طرح ہوا۔
محمد شاہ رنگیلا چاہتا تھا کہ اُسے مرنے کے بعد قبر کی جگہ محبوبِ الٰہی کے قدموں میں مل جائے مگر وہ زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا جبکہ متولی اور مجاور اس پر راضی نہ تھے۔ اُس نے ایک ترکیب کھیلی تمام گدی نشینوں اور مجاوروں کی اپنے ہاں ضیافت کی اور سب کو بڑی محبت سے کھانا کھلایا مجاوروں کو پیاس محسوس ہوئی تو کہا حضور پانی منگوا دیجئے کہا منگواتے ہیں اور کھانا کھائو جب کھانا کھا کھا کر اُن کا پیاس سے بُرا حال ہو گیا تو بیچارے پانی کے لیے تڑپنے لگے تو محمد شاہ رنگیلا نے کہا کہ مجھے محبوبِ الٰہی کے قدموں میں جگہ دے دو مجاوروں نے کہا حضور یہ بہت مشکل ہے تو اُس نے کہا کہ پانی بھی مشکل ہے چونکہ مجاوروں کو خوب مرغن غذائیں کھلائی گئی تھیں تو اُنہوں نے پیاس کی شدت کے پیشِ نظر ہاں کر دی اور لکھ کر دے دیا کہ وہ جگہ آپ کو دے دی جائے گی تو بادشاہ نے نہ صرف اُن کو پانی پلایا بلکہ قیمتی تحفے تحائف دے کر دربار سے عزت کے ساتھ رُخصت کر دیا۔
Muhammad Shah and Nadir Shah
حضرتِ امیر خسرو کو محبوبِ الٰہی سے حد درجہ عشق تھا حضرت خواجہ نظام الدین محبوبِ الٰہی امیر خسرو کے پیر اور اُستاد تھے امیر خسرو نے اپنے مُرشد کے عشق میں دُنیا ترک کر دی تھی اور اپنے مُرشد کے انتقال کے بعد دیوانگی سے سرشار ہو کر خود بھی اپنے محبوب سے ہمیشہ کے لیے جا ملے۔حضرت امیر خسرو اور محبوبِ الٰہی کے درمیان محمد شاہ رنگیلا کی قبر ایک پردے کی طرح حائل ہے مغل بادشاہوں کی آخری کڑی بہادر شاہ ظفر نے دیکھا کہ برسوں اور صدیوں کی سلطنت ہاتھوں سے جاتی ہے اور انگریز ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں انہیں بڑا رنج ہوا اور دہلی کے ایک بزرگ کے پاس تشریف لے گئے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور عرض کیا حضور کچھ کریں مسلمانوں کی حکومت خطرے میں ہے مسلمان تباہ ہوتے ہیں تو مغلوں کا نام ختم ہوتا ہے۔
بزرگ بولے صرف ایک شرط ہے اگر وہ پوری کر دی جائے تو مغل سلطنت پر آنچ بھی نہیں آ سکتی بہادر شاہ ظفر بولے فرمائیے وہ کیا ہے تو کہا کہ عاشق اور معشوق کے درمیان جو پردہ حائل ہے اسے ہٹا دیا جائے بہادر شاہ ظفر نے کہا وہ کیا حضور ! کہا محبوبِ الٰہی اور امیر خسرو کے درمیان محمد شاہ رنگیلا کی قبر دیوار بن کر حائل ہے زندگی میں جب وہ جُدا نہیں ہیں تو وصال کے بعد اُن کو جدا کیوں کیا ہے؟محمد شاہ رنگیلا کی قبر کُشائی کر کے انہیں کہیں اور دفنا دو ہندوستان پر کبھی انگریز قبضہ نہیں کر سکتے۔
بہادر شاہ ظفر نے عرض کیا حضور یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ لوگ کہیں گے سلطنت کی ہوس میں دادا کی قبر پوتے نے کھدوا ڈالی میں تاریخ میں اس سیاہ باب کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا جو اللہ کو منظور ہے وہ ہو کر ہی رہے گا تو بزرگ نے کہا پھر تباہی کا مقابلہ کرو۔ اس طرح محبوبِ الٰہی نظام الدین اولیاء کا پرستار محمد شاہ رنگیلا آج بھی اپنے محبوب کے قدموں میں آسودہ خاک ابدی نیند سو رہا ہے مغلوں کی سلطنت تباہ برباد ہو گئی مگر محمد شاہ رنگیلا کو کوئی بھی محبوبِ الٰہی کے قدموں سے جُدا نہ کر سکا۔