مہمند ایجنسی (سعید بادشاہ) مہمند ایجنسی سالانہ ترقیاتی پروگرام(اے ڈی پی) برائے 2016-17 مالی سال کے لئے ایک ارب 23کروڑ روپے مختص۔فشریز اور سوشل ویلفئیرکا محکمہ نظر انداز۔
سپورٹس کلچر اینڈ یوتھ افئیرز ایک کروڑ نوے لاکھ سے زائد روپے خرچ کرنے کے حقدار بنا دیا گیا ۔ختمی منظوری پولیٹیکل ایجنٹ منتخب ایم این اے کی مشاورت سے دیتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی اور عوامی حلقوں کا میرٹ کے مطابق خرچ کرنے اور تمام محکمہ جات کے منصوبوں کی شفاف مانیٹرنگ اور ہر سکیم کی بر وقت تکمیل یقینی بنانے کا مطالبہ۔
تفصیلات کے مطابق مہمند ایجنسی کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے فاٹا سیکرٹریٹ نے تفصیلات جاری کردی ہے۔جس کے مطابق فاٹا کے سالانہ ترقیاتی بجٹ کا اٹھارہ ارب 23 کروڑ بیس لاکھ روپے کا مہمند ایجنسی کو 6.754فیصد یعنی ایک ارب 23کروڑ 13 لاکھ 60 ہزارروپے ملینگے۔ جس میں دوسہ ماہی دورانئے کے دو اقساط ریلیز کی جا چکی ہے۔
مہمند ایجنسی کے سالانہ اے ڈی پی میں تعلیم کیلئے249.259 ملین روپے،مو اصلات کیلئے 241.85 ملین روپے،سب سے اہم شعبہ زراعت محض 16 ملین روپے، PHEپبلک ہیلتھ 127.345 ملین روپے ،ہاؤسنگ43.306 ملین روپے،صحت 113.259 ملین روپے، توانائی 104.156 ملین روپے، زراعت 16 ملین روپے ،لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ 38.891 ملین روپے،فارسٹ، جنگلات 54.257 ملین روپے ،رورل ڈویلپمنٹ28 ملین روپے ،ریجنل ڈویلپمنٹ102.730 ملین روپے ایریگیشن101.949 ملین روپے سوشل ویلفئیر 000،سپورٹس کلچر اینڈ یوتھ افئیزز ڈیپارٹمنٹ کو ایک کروڑ نوے لاکھ سے زائد روپے خرچ کرنے کا مجاز ٹھہرایا گیاہے۔
ویب سائیٹ پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امسال مچھلی پالنے اور افزائش کے محکمہ فشریز اور سوشل ویلفیئر کے لئے کوئی رقم مختص نہیں جس کی وجہ سے دونوں محکموں کے مستقبل اور کارکردگی پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اسی طرح مہمند ایجنسی میں عوام اور ان کی معیشت سے قریبی تعلق رکھنے والے اہم شعبہ زراعت کے محکمے کے لئے سالانہ صرف ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ مہمند ایجنسی کے کاشتکاروں کا حکومتی سرپرستی نہ ہونا ، تخم اور کھاد اور زرعی زمینو ں کے لئے سستے ریٹ پر ٹریکٹر ز کی عدم فراہمی کا شکوہ بجا ہے۔
حالانکہ مہمند ایجنسی کے اکثر مقامی مرد و خواتین باشندے زراعت کی پیشے سے وابستہ ہیں۔ اور یہاں کے لوگ آبی اور بارانی زمینوں پرکاشت کرنے والے گندم فصل کے فصل پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔مہمند ایجنسی کے تحصیل حلیمزئی ،تحصیل یکہ غنڈ ،تحصیل پنڈیالی،تحصیل پڑانگ غار اور تحصیل صافی میں کاشت ہونے والے دھنیا،پیاز،ٹماٹر،کالی اور ہری مرچ ملک بھر کے شہروں کو سپلائی ہو تی ہے جس کی مار کیٹ میں بڑی مانگ ہے۔
محکمہ زراعت کے بارے میں کاشتکاروں کا عام تاثر یہ ہے کہ عام زمیندارکا سرکاری دفاتر میں جان پہچان نہیں محکمہ زراعت کا مفت بیج ا ورکھاد محکمہ کی تجاویز کی بجائے پولیٹیکل انتظامیہ کے تھمائے گئے لسٹوں کے مطابق مراعات کے طور پران لوگوں میں تقسیم ہوتاہے جن کا پولیٹیکل انتظامیہ کے دفاتر میں اثر رسوخ اور رسائی ہو۔ جسکی وجہ سے محدود فنڈ بھی غیر مستحقین پر خرچ ہوتا ہے۔اسی طرح سپورٹس کلچر اینڈ افئیر کا سالانہ فنڈ دو کروڑ سے تھوڑے ہی کم ہے۔ گزشتہ دو سال میں دو نیشنل ٹورڈی مہمند سا ئیکل ریس دو سالانہ سپورٹس فیسٹیول کے انعقاد کے علاوہ عملی میدان میں کار کردگی غیر تسلی بخش قرار دی جا رہی ہے۔
البتہ سائکل ریس ،سالانہ سپورٹس فیسٹیول، حسن قرات مقابلوں اوردینی مدارس کو کھیل کھود اور دیگر تعمیری سرگرمیوں میں شریک کرنا مقامی طور پر بہت سراہا گیا۔ دوسری طرف سپورٹس تنظیموں اور کھلاڑیوں نے گزشتہ سال 35لاکھ روپے فنڈ سے صرف 13لاکھ کا سامان غیر مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے پر احتجاج کیا۔مہمند کرکٹ ایسوسی ایشن کے پاس 30کے لگ بھگ رجسٹرڈ کلبز ہیں۔ مگر ساری ایجنسی میں ہارڈ بال کرکٹ گراؤنڈ نہیں۔مقا بلوں اور ٹورنا منٹس کے لئے مہمند ایجنسی کے ٹیموں کو با جوڑ ایجنسی اور جمرود کرکٹ گراؤنڈ خیبر ایجنسی جانا پڑتا ہے ۔مہمند ایجنسی میں کبڈی ، کرکٹ ، والی بال کا بے پناہ ٹیلنٹ پایا جاتا ہے۔
مگر رہنمائی اور سرپرستی کا فقدان ہے۔اسی طرح غریب اور ذہین طلباء بالحصوص یتیم اور بے سہارہ بچے غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس کے لئے بھی اے ڈی پی میں حصہ رکھنا چاہئے یا یوتھ افیئرز بجٹ کا کچھ حصہ مختص کرنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ فلاحی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ محکمہ زراعت اور سپو رٹس اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کو پولیٹیکل انتظامیہ کے اثر سے باہر نکال کر اپنے طریقہ کے مطابق کام کرنے دیاجائے۔اور مقامی زمینداروں اور سپورٹس تنظیموں سے بہتری کے لئے مشاورت کی جائے۔
گزشتہ دنوں مہمند پریس کلب میں سیاسی جماعتوں کے اے ڈی پی کے حوالے منعقدہ مذاکرے میں اظہار کرتے ہوئے سیاسی رہنماؤں نے تعلیم و صحت کو اولیت دینے، عوام کو بنیادی ضروریات کے ترقیاتی منصوبوں میں عام لوگوں کو مشاورت میں شریک کرنے کو لازمی قرار دیا۔ مذاکرے میں سالانہ ترقیاتی فنڈز سے آگاہ رہنے اور عوام کا شعور بیدار کرنے پر زور دیا گیا۔
عوامی حلقوں کا بھی مطالبہ ہے کہ اے ڈی پی سے بند کمروں اورایف سی آر کے تحت اثررسوخ یا سیاسی فوائد کے لئے بطور مراعات ترقیاتی سکیموں کی نامزدگیوں کی بجائے میرٹ اور ضرورت کے مطابق دی جائے تو بنیادی مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ واٹر سپلائی منصوبوں پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باؤجود پینے کا پانی کا مسئلہ بدستور قائم و دائم ہے۔
اگر پرانے ڈگر پر چلتے رہے تو عوام کو کم اور خواص کو زیادہ فائدہ ہوگااور محکمہ جات کا کمیشن چلتا رہے گا۔