تحریر : سعید بادشاہ مہمند ایجنسی میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات گزشتہ چار پانچ سال سے محسوس کئے جارہے ہیں۔ اس دوران گرمی کی شدت میں نمایاں اضافہ اور موسم گرما طویل ہوتا جارہا ہے۔ موسمی بارشوں کا تسلسل ٹوٹ کر اس میں ریکارڈ کمی نوٹ کی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے اناج کی پیداوار مایوس کن حد تک کم ہوکر رہ گیا ہے۔بارانی زمینوں پر گندم کی کاشت کے لئے بروقت بارش نہ ہونے سے فصل حاصل کرنا تو درکنار تخم بھی ضائع ہوجاتا ہے۔گندم اور بھوسہ حاصل نہ ہونے سے زمینداروں کے گھروں میں انسانوں اور مویشیوں کی فاقوں تک نوبت آئی ہے۔ گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے چمرکنڈعلینگار، عیسیٰ خیل درہ، امبار، غلنئی، شاتی کور اور دیگر پہاڑوں میں چشمے سوکھنے سے چراگاہیں بنجر میں تبدیل ہورہے ہیں۔ ماحول میں اس تبدیلی سے پہاڑوں میں بسیرا رکھنے والے چرندوں، پرندوں اوردیگر جانوروں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
ان پہاڑی حیات نے امکانی طور پردور دور کے نسبتا آباد پہاڑوں اور چراگاہوں کا رخ کرکے نقل مکانی کی ہے۔پانی کی قلت کے باعث سبزہ نہ اگنے اور گندم کے بھوسے کا حاصل نہ ہونے سے مال مویشی بھی غذائی قلت کا شکار ہوکر رہے ہیں۔ جس سے مقامی سطح پر دودھ اور گوشت کی پیداوارمیں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دوسرے علاقوں سے سپلائی ہونے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بے وقت کی طوفانی بارشیں سبزیوں کے موسم میں ژالہ باری اور آندھیاں فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔ سیلابی ریلے آبادی اور زرعی زمینوں کو بہا لے کر لاکھوں روپے کا نقصان کرجاتے ہیں۔ جس کے ازالے یامعاوضے کے لئے حکومت اور لوکل انتظامیہ کے پاس بھی کوئی پروگرام نہیں۔ سمال ڈیمز اور تالاب نہ ہونے کی وجہ سے سیلابی پانی نقصان کر کے برساتی نالوں میں سے ہوتے ہوئے دوسر علاقوں کو بہہ جاتے ہیں۔مہمند ایجنسی کے اکثر علاقوں میں موسم گرما کے دوران کئی ماہ تک بارشیں نہیں ہورہی۔ جس سے میدانی اور پہاڑی درختوں کے نشونما رکنے کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح مزیدنیچے چلی گئی۔
آبنوشی و آبپاشی کے ٹیوب ویل اور ڈگ ویلوں میں پانی کے ذخیرے تشویشناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہیڈ کوارٹر غلنئی کے مضافاتی گاؤں سمیت بیشتر علاقوں میں پینے تک کا پانی ناپید ہوتا جارہاہے۔ لوگ گھریلوں ضروریات کے لئے فی ٹینکر پندرہ سو روپے تک خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی استطاعت نہ رکھنے والے بعض گاؤں کے غریب خاندانوں نے ضلع چارسدہ اور ضلع پشاور کو نقل مکانی کی ہے۔غلنئی گاؤں کے عمائدین نے ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا ہے کہ اگر غلنئی بارانی ڈیم جس پر پچیس کروڑ خرچ ہوکر پچاس فیصد کام ہوا ہے کو جلد از جلد مکمل نہیں کیا گیا تو پینے کے پانی بحران سے پورا گاؤں نقل مکانی کر جائینگے۔ انہوں نے مذکورہ ڈیم کو زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کی واحد امید قرار دی ہے۔آبپاشی کے لئے پانی کی کمی واقع ہونے سے کاشتکاربھی سبزیاں اور دیگر نقد آور فصلیں کاشت نہ کرسکے ہیں اور زرعی زمینیں بھی مرحلہ وار بنجر ہوکر بڑی تعداد میں کاشتکار بے روزگار ہورہے ہیں۔
مہمند ایجنسی میں موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے اثرات کے بارے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت مہمند ایجنسی سعید خان نے بتایا کہ مہمند ایجنسی میں روز گار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ کاشتکاری کے پیشے سے وابسطہ ہیں۔ یہاں کی زرخیز زمین گندم، جوء اور مکئی کی فصلوں کے علاوہ پیاز، ٹماٹر، دھنیا، مرچ، گوبھی، شلغم اور دیگر سبزیوں کی پیداوار کیلئے مشہور ہیں۔ مگر گزشتہ کئی سالوں سے گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات کے باعث اناج اور نقد آور سبزیوں کے کاشت میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ اور کاشتکاروں کوسالانہ لاکھوں روپے کے خسارے کا سامنا ہونے پر ان کے خاندانوں کی معیار زندگی مزید پست ہوگیا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بارانی زمینوں پر امسال کے لئے گندم اور جوء کی فصلیں نومبر اور دسمبر کی بجائے جنوری اور فروری میں بارش کے بعد ہوئی۔ دو ماہ کا وقت کم ملنے کے سبب پیداور نہیں ہوئی اور بیج بھی ضائع ہوگئی۔ جبکہ ٹیوب ویل اور ڈگ ویل کے آبی زمینوں پر کاشت تو بروقت ہوئی مگر درمیانی عرصے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے فصل کو درکار پانی نہ ملا۔ اس لئے اس کی پیداوار بھی تسلی بخش نہیں ہوئی۔ اس موسمیاتی تبدیلی اور گرمی کے دورانیے میں اضافے سے سرسوں کی فصل نہ ہو سکی۔ کیونکہ درکار آب و ہوا اور ماحول اب میسر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جون اور جولائی میں ریکارڈ گرمی اور خشک سالی سے زیر زمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک گر گئی۔ ٹیوب ویل اور کنویں خشک ہو کر آبپاشی کی پانی صرف ابنوشی تک آگئی۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے رواں سال مہمند ایجنسی کے کاشتکار موسم گرما کے نقد آور سبزیاں کاشت نہ ہو سکی۔
اس کے علاوہ ہیڈ کوارٹر غلنئی سمیت تمام تحصیل حلیمزئی میں کنویں خشک ہونے اور پانی کی سطح نیچے جانے سے لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ دریائے کابل سے تحصیل خویزئی کے راستے یا لوئر مہمند کے نہری علاقوں سے غلنئی تک پائپ لائن کے ذریعے پانی فراہمی کے منصوبے شروع کی جائے۔پانی کی کمی سے دوچارغلنئی ہیڈکوارٹر تحصیل کو لوئر مہمند سے پائپ لائن کے ذریعے پانی فراہمی کے لئے 2004 میں اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ صاحبزادہ محمد انیس مرحوم نے اس میگا واٹر سپلائی منصوبے پر عملدرآمد کی کوششیں کئے مگر ان کے تبادلے کے بعد سردخانے کی نظر ہوا۔ بارانی اور سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے جگہ جگہ سمال ڈیمز بنائے جائے۔ غلنئی ڈیم منصوبے کی تکمیل سے بھی نمایاں بہتری آئیگی۔ کیونکہ آنے والے وقتوں میں بارشیں مزید کم ہو گی۔ اور پانی کی قلت میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے مہمند ایجنسی کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ پانی کی غیر ضروری استعمال سے اجتناب کریں۔ بارش کے پانی کو بھی گھروں میں محفوظ کرنے کے طریقے اپنائے۔ گاؤں اور دیہات میں چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر کپڑوں کی دھلائی اور دیگر کاموں میں استعمال کئے جائے۔ حکومتی سطح پر جدید سائنسی طریقوں سے فصلوں اور سبزیوں کے ایسے بیجوں کے ایجاد پر تحقیق کی جائے جو اس طرح کے موسموں میں کاشت ہو سکے۔ ورنہ بڑی تعداد میں کاشتکار بے روزگاری سے دو چار ہو جائینگے۔
مہمند ایجنسی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ لائیو سٹاک اینڈ ویٹرنری مفتی عبدالرازق نے اس حوالے سے بتایا کہ مہمند ایجنسی میں بارشیں کم اور موسم گرم ہونے سے دودھ اور گوشت کی مقامی طور پر پیداوار میں بتدریج کمی ہورہی ہے۔کیونکہ موسم گرما اورسرما میں گھاس اور چارہ نہ اگنے سے ما ل مویشیوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔کیلشم اور فاسفورس کی کمی سے جانور لاغر اور معذور ہورہے ہیں۔کم بارشوں کی وجہ سے جانوروں کی جراثیمی بیماریاں آسانی سے پھیل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گائے کے بہترین افزائش نسل کے مصنوعی طریقے سے پیدا ہونے والے گائے مقامی گائیوں کے نسبت نازک اور موسمی شدت کا کم مقابلے کی اہلیت رکھتے ہیں اور خوراک بھی ان سے زیادہ کھاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اس پر جلدی اثر انداز ہوکر بیمار کرادیتے ہیں۔بارشیں کم ہونے سے پہاڑی علاقوں میں غذائی قلت کے سبب مویشی پال زمینداروں نے بھیڑ بکریوں اور گائے بیچنا شروع کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمند ایجنسی قدرتی خالص دودھ کی جگہ ملک پیک اور ڈبہ بند دودھ نے لی ہے۔اور مقامی طور پر پالے جانے والے مویشیوں کی افزائش نسل کم ہوکر گوشت کی ضرورت بھی ضلع چارسدہ اور ضلع پشاور سے منگوا کر پوری کی جاتی ہے۔ جس کی حلال ہونے اور مضر صحت نہ ہونے کی پہچان بھی مشکل ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ زمینداروں اور عام لوگوں کے پالے ہوئے گھریلو مویشیوں کے لئے چارے کی ایسی بیجوں کی ضرورت ہے جو سخت موسم اور کم پانی کا موحول برداشت کرکے سرسبز رہے۔ بارشوں کا پانی سٹور کرکے بھی گھاس اگائی جاسکتی ہے۔ مگر اس کے لئے عوام میں شعور پید کرنا اور موسمیاتی تبدیلی سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہوگی۔
Mohmand Agency
عالمی حدت میں اضافے کے مہمند ایجنسی پر منفی اثرات کے حوالے سے محکمہ جنگلات مہمند ایجنسی کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر فاروق خان کا کہنا تھا کہ مہمند ایجنسی میں گلوبل وارمنگ کے اثرات مرحلہ وار ظاہر ہوتے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے۔جس میں ذمہ دار ممالک ہی زیادہ اس کی وجہ ہے کیونکہ عالمی حدت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ فضا میں موجود کاربن گردانی جاتی ہے۔امریکہ ساری دنیاکا پچیس فیصدی کاربن فضا میں خارج کرتا ہے۔ مہمند ایجنسی میں نئے درخت اور جنگلات لگانے سے منفی اثرات کم کئے جاسکتے ہیں۔جنگلات کی حفاظت کرنا عوامی فریضہ قرار دیا جائے۔کیونکہ ایک تناور درخت ائیر کنڈیشنرز سکیل کے سے دس ٹن ٹھنڈک فراہم کرتی ہے جو کھلی فضا میں کم محسوس ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ درختیں بادلوں اور بارشوں کو بھی کھینچ لاتی ہیں۔اس لئے درختوں کی کٹائی میں بھی اختیاط ضروری ہے۔ ایندھن یا دیگر ضروریات کے لئے ہمیشہ پکا درخت کاٹیں۔ درخت کو کبھی بھی جڑ سے نہ اکھاڑے کیونکہ کٹا ہوا درخت پھر اگتا ہے۔ ایک درخت کاٹنے پر کم از کم دو نئے پودے لگانا اپنے اوپر لازمی کیا جائے۔ مہمند ایجنسی میں کوئی بھی جتنے پودے لگانا چاہتے ہیں تو محکمہ جنگلات انہیں مفت پودے فراہم کریگی۔ انہوں نے کہ محکمہ جنگلات مہمند ایجنسی نے وسیع رقبے پر جنگلات لگائے ہیں۔ تحصیل پڑانگ غار میں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے لگائے گئے جنگلات سے وہاں کی فضا اور ماحول بھی صاف ہے۔ واٹر لیول کنٹرول ہونے کے ساتھ بارشوں میں بھی زیادہ کمی نہیں ہوئی ہے۔کاشتکاروں پر بھی اپر مہمند کے نسبت زیادہ منفی اثرات نہیں پڑے ہیں۔ اب مختلف علاقوں میں مزید پودے اور جنگلات لگائے جارہے ہیں جن کی دیکھ بھال عوام اور خواص پر فرض ہیں۔ مہمند ایجنسی کو ایندھن میں خود کفیل بنانے میں محکمے کے ساتھ عوام کا اہم کردار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ جنگلات مہمند ایجنسی کا سالانہ فنڈ سات سال پہلے کے نسبت پچاس فیصد کم کردیا گیا ہے۔ اس میں اضافہ ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ جنگلات لگا کر مہمند ایجنسی میں بالواسطہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا شدت کم کیا جا سکے۔