محسن داوڑ صاحب ممبر قومی اسمبلی کی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران غداری پر تقریر سنی۔ موسوف کہتے منظور پشین کو پشاور سے گرفتارکیا گیا۔ منشور پشین کی گرفتاری پر مجھ سمیت ٢٩ لوگوں کو گرفتار کر کے غداری کے مقدمے قائم کیے گئے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے غفار خان مرحوم، ولی خان مرحوم،اسفند یار ولی خان، جی ایم سید(غلام مصطفےٰ سید) مادر ملت فاطمہ جناح، عبدالصمدخان، محمود خان اچکزئی،خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل پر بھی لگا تھا۔جس نے بھی سچی بات کی ،جمہورت کی بات کی اس پر غداری کا الزام گا۔کہا گیا کہ یہ آئین کونہیں مانتے ۔ نہیںلگا تو ڈکٹیٹر مشرف پر نہیں لگا جو کہتا تھا کہ آئین کیا ہے ایک کاغذکا ٹکڑا ہے۔کیا وزیر اعظم عمران خان نے اس پارلیمنٹ پر الزام نہیں لگائے اور حملہ کیامگراس پر مقدمہ نہیں چلا۔ہم جب پر امن احتجاج کرتے ہیں تو ہم پر غداری کے الزام لگتے ہیں۔ حکمرانوں کے سوا سارے ملک غدار بنا دیا۔اس طرح ملک نہیں چل سکتا۔
شکر ہے محسن داوڑ نے غدار وطن شیخ مجیب اور الطاف حسین کا ذکر نہیں کیا۔ورنہ ان کا کیس کمزور ہوجاتا۔کیوں کہ یہ دونوں پاکستان کے ثابت شدہ غدار ہیں۔شیخ مجیب کو اپنی ہی فوج نے بمعہ خاندان کے ختم کیا ۔الطاف حسین کو اپنی ہی قائم کردہ ایم کیو ایم نے بلدیہ،صوبائی اسمبلی،قومی اسمبلی اور سینیٹ میں غدار قرار دے کر آئین پاکستان کی دفعہ فہ ٦ کے مطابق مقدمہ چلاکر قرار واقعی ہی سزا دینا کی مطالبہ کیا ۔ اب وہ لندن میں عبرت ناک زندگی گزار رہا ہے۔ دہشت گرد مودی سے رو رو کر بھارت کی شہریت مانگ رہا ۔ یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے جنہوں نے مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان سے سے غداری کی۔
ا ب آتے ہیں محسن داوڑ میں کی طرف سے سند ِوفاداری دینے والے حضرات کی طرف۔ سب سے پہلے عبدالغفار خان کے خاندان کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خان اور غفار خان نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ صوبہ سرحد کو الگ سے پشتونستان بنانا چاہتے تھے۔ سرحد کے غیور پشتونوں نے پاکستان بنتے وقت پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ قوم پرست پشتونستان نے خیبر پختون خواہ(سابق صوبہ سرحد) ریفرنڈیم میں قائد اعظم علی جناح سے بری طرح شکست کھا ئی تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان بن جانے کے بعد قوم پرست،سرحدی گاندھی،سرخ پوش مرحوم عبدالغفار خا ن اُن کے صاحبزادے مرحوم ولی خان صاحب، بانی پاکستان کا ساتھ دیتے ،پاکستان اور اپنے صوبے کی ترقی میں شامل ہو تے۔مگر یہ حضرات ہمیشہ خیبر پختون خواہ(سابق صوبہ سرحد) کو پشتونستان بنانے اور افغانستان سے ملانے کے لیے ناکام سازشیں کرتے رہے ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افغان طالبان نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرکے پشتونستان کے مسئلہ کو دفن کر دیا تھا۔ پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو گئی تھی جس پر لاکھوں فوجیوں کو لگانا پڑھ رہا ہے۔
افغان طالبان کی جائز اسلامی حکومت کو امریکا نے ٤٨ ناٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ کر کے ختم کیا۔اب شکست مان کر وہ افغانستان نکلنے کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔گریٹ گیم کے اہلکاروں،امریکا ، بھارت،اسرائیل اور اندرونی قوم پرستوں اور سیکرلسٹوں کی مدد سے افغانستان میں پہلے کرزئی اور اب اشرف غنی صاحب کی قوم پرست حکومت قائم کر کے پاکستان پر دبھائو ڈالا جا رہا ۔ ولی خان کی پارٹی کے نوجوانوں کی قوم پرست تنظیم ”پشتون زلمے” کے نوجوانوںکوولی خان نے ١٩٧٢ء میںافغانستان میں قوم پرست سردار دائود کے دورِحکومت میں اس لیے فوجی ٹرینینگ لینے افغانستان بھیجا تھا۔ ولی خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج بنگلہ دیش میں بھارت سے شکست کے بعد کمزور ہو گئی ہے۔ اس وقت اس سے لڑ کر پشتونستان بنانا آسان ہے۔ چوںناچہ ولی خان نے افغانستان میں قوم پرست سردادر دائود کو پشتون زلمے کو دہشت گردی کی ٹرینیگ لینے کے آمادہ کیا۔ ولی خان کامقصد تھا کہ پاکستان سے کاٹ کر صوبہ سرحد کو آزاد پشتونستان بنایا جائے۔
پشتون زلمے ، تنظیم کے نوجوانوں نے افغانستان سے دہشت گردی کی ٹیرنینگ لے کرپورے پاکستان میں تخریبی کاروئیاں کی تھی۔لاہور واپڈا دفتر پر بم مار کر درجنوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا تھا۔ سیاسی مخالف حیات محمد شیر پائو صاحب کو شہید کیا تھا۔ ولی خان نے افغانستان میں جا کر پشتون زلمے کی ٹرنینگ کی سلامی بھی لی تھی۔سردار دائود کو پیغام بھیجا تھا کہ پشتوں پائلٹ جیٹ جہاز اڑا کر افغانستان آئیں گے ان کو واپس پاکستان کو نہ دینا۔اسی وجہ سے ولی خان پرمرحوم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ مگر جرنل ضیا الحق کے دور میں بھٹو دشمنی کی وجہ سے ولی خان پر مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ (حوالہ کے لیے دیکھیں ولی خان کی پارٹی کے منحرف کیمونسٹ لیڈر جناب جمعہ خان صوفی صاحب کی کتاب ” فریب ناتمام”)۔کیا پاکستان کے خلاف ولی خان کی مسلح بغاوت غداری نہیں؟ اس کے علاوہ قوم پرست ولی خان نے بھارت کے کہنے پر پاکستان میںکالا باغ ڈیم بھی نہیں بننے دیا تھا۔
٢ جس سے پاکستان کو کافی نقصان پہنچا۔ سستی پن بجلی نہ ملی سکی۔جہاں تک اسفند ولی خان کی پاکستان مخالف قوم پرستی کی بات ہے تو ”یہ خوموشی کب تک” کتاب میں(ر) لیفٹینیٹ جنرل شاہد عزیز واضع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو بتایا کہ فاٹا میں قوم پرستوں کو امریکا اور بھارت ،پاکستان سے لڑنے کی ٹرنینگ دے رہے ہیں۔ مگر ڈکٹیٹر مشرف نے اس بات پر کان نہیں دھرا۔ پھر یہ بات اور زیادہ اس وقت واضع ہوئی جب ناراض بیگم نسیم ولی خان نے پریس کانفرنس کرکے اسفند یار ولی پر الزام لگایا کہ ہمیں بتایا جائے کہ اسفند ولی خان نے امریکا سے ساز باز کر پشتونوں کو کتنے ڈالروں کے عواض فروخت کیا۔ اس طرح افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے امریکا نے بھی خطے کے قوم پرست قوتوں کواپنے ساتھ ملا لیا۔ ایک اور بات امریکی کانگریس نے پیٹگان پینٹاگان سے افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے سوال کیا تھا۔ کہ آپ کو معلوم ہے کہ افغانیوں نے اس سے پہلے دو بڑی طاقتوں کو شکست دی تھی۔ پینٹاگان نے کانگریس کو مطمئن کیا تھا کہ ہم نے اس کا انتظام کر لیا ہے۔ ذرائع اس کی کڑی اسفندیار ولی اور امریکی صدر کی ملاقات سے ملاتے ہیں تردید بھی نہیں کی۔
اب غلام مصطفےٰ شاہ (جی ایم سید) کی بات کرتے ہیں۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا ایجنٹ ،جیے سندھ کا بانی مرحوم غلام مصطفےٰ شاہ صاحب المعروف جی ایم سیدجو پاکستان توڑنے اور آزاد سندھ بنانے کے منصوبے پر زندگی پھر عمل پیرا رہا۔ اس نے سندھ میں آباد محب وطن مہاجروں، پنجابیوں اور پٹھانوں کو کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔برصغیر سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجروںکو مکڑ کہتا رہا۔جیے سندھ کے سندھیوں کو یہ فلسفہ پڑھاتارہا۔مہاجروں،پنجابیوں اور پٹھانوں نے سندھ پر قبضہ کر لیا ہے۔ آبادی کا تناسب تبدیل ہو گیا ہے۔ ان تینوں قوموں نے سندھ کے باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیا ہے۔جیے سندھ کے کارکن مہاجروں پنجابیوں اور پٹھانوں پر حملے کرتے رہے۔ جی ایم سید نے مہاجروں کی دشمنی میں میرٹ کو پامال کر کے سندھ میںبدنام زمانہ کوٹہ سسٹم پریشئر ڈال کر نافذکرایا۔ جی ایم سید بھارت کی شہہ پر ساری عمر پاکستان ، پنجاب اورپاکستانی فوج کے مخالفت کرتا رہا۔بھارت کی سابق مرحوم وزیر اعظم اندرا گاندھی صاحبہ کو پاکستان پر حملے کی دعوت بھی دی تھے۔کیا یہ غداری نہیں تو کیا ہے؟۔یہ بھی سارے ارمان لے کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔ قیامت تک جب تک پاکستان قائم ہے سندھ پاکستان کا حصہ رہے گا۔ پاکستان کی ساری قومیں پاکستان کی ترقی کے لیے کام کرتی رہیں گی ۔
اب اگر عبدلصمد اچکزئی اور اس کے بیٹے محمود خان اچکزئی کی بات ہے تو یہ صاحبان بھی قوم پرستی میں ہی ڈوبے ہوئے ہیں عبدلصمد اچکزئی کو کے فاشست بھٹو کے دور میں قتل ہوا جو نا افصافی ہے۔ کسی بھی بات کا دلیل سے جواب دینا ہوتا ہے ۔بھٹو کی طرح مخالفین کو قتل کر کے نہیں،بھٹو نے اپنے مخالفین کو قتل کرایا جس بدلہ بھی پا لیا۔ قوم پرست لیڈر محمود خا ن اچکزئی صاحب نا اہل نواز شریف صاحب کی حکومت کے ٢٠١٣ء سے اتحادی رہے ہیں۔ یہ پاکستان میں ضم ہونے کاپشتونوں کا سب سے بڑا حق یعنی فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں شامل کرنے کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں فاٹا کے بل کو پاس ہونے سے بھی رُوکے رکھا۔ جو بلا آخر پاس ہو گیا۔ یہ پاکستان کی فوج اور عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں۔یہ جس ملک میں رہ رہے ہیں، جس کاکھاتے ہیں، اس ملک کے ایک صوبہ خیبر پختون خواہ کو افغانستان کا حصہ مانتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان کی سرحد پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہنے والے دریائے اٹک تک ہے۔فاٹا کے منتخب ممبران نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں شامل کرنے کی اپنی مہم کے دوران کہا تھا کہ محمود خان اچکزئی کا فاٹا میں کوئی ایک بھی حمایتی نہیں۔ نہ فاٹا کے کسی گھر پر ان کی پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ یہ فاٹا کے عوام کی کسی کی غمی خوشی میں کبھی بھی شریک نہیں ہوئے۔ ان کوفاٹا کے حقوق کا غم کیوں نڈھال کر رہا ہے؟۔اب خیر بخش مری اور عطاللہ مینگل کی بات کرتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے اپنے ملک کو مضبوط کرنے کے لیے ١٩٦٩ء بلوچستان کو پاکستان کاچوتھا صوبہ بنا دیا گیا۔ جب سردار دائود کے کی مدد سے افغانستان میں بلوچ نوجوانوں نے پاکستان میںدہشت گردی کرنے کی ٹیرنینگ لی اور پاک فوج سے لڑنا شروع کیا ۔(حوالہ جمعہ خان صوفی صاحب کی کتاب ”فریب ناتمام”)١٩٧٣ء میںنواب خیر بخش مری نے بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کے تحت مزاحمت میں شامل ہو گئے۔ بلوچستان میں مسلح مزاحمت بگٹی،مری ،قلات اور جھالاوان کے پہاڑوںمیں ہوتی تھی۔ اس مزاحمت کے دوران میں پاکستان کے٤٤٠ فوجی مارے گئے اور٩٠٠ بلوچ مزاحمت کار بھی مارے گئے ۔تو ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان اور بلوچوں کی کولیشن حکومت کو ختم کیا۔ ولی خان پر پاکستان کے خلاف غداری کامقدمہ قائم کیا۔ بعد میںبھٹو دشمنی میں ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے باغی ولی خان کر رہا کیا تو یہ مزاحمت بھی ختم ہو گئی۔١٩٦٣ء میں نواب شیر محمد بجارانی،مینگل، مر ی اوربگٹی ایریا میں مزاہمت شروع کی ۔ محسن داوڑ کی جماعت پشتون تحفظ موومنٹ نے سیاسی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں۔ ان سرگرمیوں میں عوام کوپاکستان کی فوج کے خلاف اُکسایا جاتا ہے۔ نعرہ دیا جاتا ہے کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے ودری ہے۔آئی ایس پی آر نے بیرون ملکوں سے فنڈ لے کر ملک دشمن سرگرمیاں کا الزام لگایا ہے۔فاٹا میں چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پاک فوج کے ایک فرد کو شہید کیا۔ بیرونی فنڈ سے چلنے والی پاکستان مخالف این جی اوئز اور پرانے شکست خردہ قوم پرست ان کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لیے محسن داوڑ کو مشورہ ہے کہ آدھا سچ کے بجائے اوپر دیے گئے واقعات کی روشنی میں پرا سچ بولیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمیشہ کے لیے بنا اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ ان شاء اللہ۔