تحریر : مبارک علی شمسی دھند میں لپٹی ہوئی 15 جنوری 1996 کی ایک سرد شام نے نامور شاعر محسن نقوی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کر ب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہو سکے گا۔ اس شام کا وہ بدبخت لمحہ ہمیں اب بھی خون کے آنسو رلاتا ہے کہ جب پی ٹی وی ہوم پر بتایا گیا کہ قادرالکلام شاعر محسن نقوی کو دہشتگردوں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے جہاں پر وہ ابدی نیند سو چکے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی ہر طرف قیامت ٹوٹ پڑی اور علمی و ادبی حلقوں میں کہرام بپا ہو گیا تھا۔ محسن نقوی جن کا خاندانی نام غلام عباس تھا، انہوں نے گرمی کی ردا میں لپٹی ہوئی 5 مئی 1947 ء کی شام سید چراغ حسین نقوی کے گھر آنکھ کھولی جو ایک غریب آدمی تھے۔ ڈیرہ غازی خان کے بلاک نمبر 45 میں جنم لینے والے اس بچے نے ابتدائی تعلیم کا آغاز قریبی سکول سے کیا۔ گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک، گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں سے ایف اے اور بی اے کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ۔ بعد ازاں اردو ادبیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیئے گورنمنٹ کالج ملتان کا رخ کیا اور پھر تعلیم کو خیر آباد کہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہو گئے اور 1967 ء میں اپنے چچا زاد سے شادی کرلی جس کے بطن سے دو بیٹے عقیل عباس نقوی اور اسد عباس نقوی اور ایک اکلوتی بیٹی جسے وہ پیار سے تتلی پکارتے تھے پیدا ہوئے محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔
محسن نقوی نے بچپن ہی سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی مسجد کے ساتھ ساتھ گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف بے حد توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذو و شوق س یپڑھتے تھے۔ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیئے پاپڑ بیلے اور پیسے کمانے کی خاطر میلوں میں لاٹری بھی لگاتے تھے اور ان کے اردگرد بچوں کا ہجوم رہتا تھا۔ 10 سال کی عمر میں ہی وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ پیسے کمانے پر بھی توجہ دینے لگے مگر وہ زیادہ پیسے کمانے کی لگن نہیں رکھتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ میری جائز ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ اور میں کسی کا محتاج نہ بنوں ۔ پیسے کما کر گھر آتے تو ماں ڈھیروں عدائیں دیتی اور کہتی تھی کہ میرا محسن بڑے صبر والا ہے۔ حالات سے لڑنا خوب جانتا ہے۔ وہ انہیں اپنے پاس بلاتیں ، گلے لگاتیں ۔بنعض اوقات محسن کا ماتھا چومتے ہوئے اشک بار ہو جاتیں اور کہتیں کہ محسن تم بڑے ہو کر بہت نام کمائو گے۔ میرا محسن ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا۔ ماں سے بات چیت کے دوران اکثر باتوں کا جواب مکمل شعر یا کسی ایک فی البدیہہ مصرعے میں دیتے ۔ پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر (Editor) اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے۔ جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ سب ہی انکی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں انکا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔ چاندنی کارگر نہیں ہوتی تیرگی مختصر نہیں ہوتی ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں احتراماََ سحر نہیں ہوتی
ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج تک بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی” یہ دل یہ باگل دل میرا کیوںبجھ گیا آوارگی” جسے پاکستان کے ہر دلعزیز گلوکار غلام علی نے گا کر ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا اس کے بعد ہر طرف سے ” آوارگی ” کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ ان کے اس کلام کو آج بھی جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں وہاں سنا جاتا ہے۔ محسن نقوی گوشت پلائو، سوانجنا اور ساگ بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ محسن نقوی جدید شاعر تھے مگر روایت سے بحر نہیںنکالتے تھے۔محسن نقوی محفل کے آدمی تھے انہوں نے 1970 ء میں اپنے خاندان کے پہلے فرد کی حیثیت سے خطابت کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ بیک وقت انہوں نے شاعری ، ادب اور خطابت کو اپنایا ۔ انکے چہرے پر روحانیت واضح چھلکتی نظرآتی تھی۔ انکا اسلوب منفرد، لہجہ توانا، کلام پر اثراور آواز میں درد و سنور تھا۔ غم دوراں اور غم جاناں کے ساتھ ساتھ انکی حمد، نعت اور کربلائی شاعری بھی بہت متاثر کن ہے انکی شاعری پڑھ کر قاری روحانیت کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے۔ یہ دل کا نگر ہے کہ مدینے کی فضا ہے۔
Pakistan People Party
1969 ء میں انہوں پیپلزپارٹی کے باقاعدہ رکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے پنا بھر پور کردار ادا کیا اس حوالے سے نہوںنے کئی نظمیں اور مضامین رقم کیئے۔ انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیئے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی جس پر انہیں 1994 ء میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔ محسن نقوی کی پاکستان پیپلزپارٹی سے بے لوث محبت اور انتھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے غریبوں کی نمائندہ جماعت کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں انہیں پارٹی ٹکٹ بھی دیا مگر بدقسمتی سے الیکشن ملتوی ہو گئے تھے۔ محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بندقبا 1970 ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منصئہ شہود پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی اردو ادب میں ہمیشہ کے لیئے زندہ وجاوید ہو گیا اور شہرت کی دیوی ان پر مہربان ہوتی چلی گئی ۔ اس دوران انہیں گورنمنٹ کالج کے بہترین شاعر ہونے کی حیثیت سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ ملتان میں انہوں نے موٹر سائیکل رکھی ہوئی تھی جہاں شعراء ادباء بیٹھتے وہاں چلے جاتے اور چائے کے دور چلتے ۔1978 ء میںانکا دوسرا شعری مجموعہ ” برگ صحرا” منظر عام پر آیا جس نے محسن نقوی کا ادبی قدکاٹھ متعین کرنے میںبنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد انکی مذہبی شاعری کا مجموعہ ” موج ادراک” شائع ہوا اس کا ایک قطعہ ملاحظہ کیجئے۔ اگر نہ صبر ِ مسلسل کی انتہا کرتے کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟ نبی کے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟
محسن نقوی کا تیسرامجموعہ” ردائے خواب” شائع ہوا جو کہ قطعات پر مشتمل تھا۔ پھر ریزہء حرف ، عذاب دید، طلوع اشک، فرأت ِ فکر اور رخت ِسفر جیسے نادرو نایاب شعری مجموعے سامنے آئے جنہیں علمی و ادبی حلقوں میںبہت پذیرائی ملی اور ملتی رہے گی۔ بعد ازوصال ان کے دو مجموعے خیمئہ جاں اور حق ایلیاء کے ناموں سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئے۔ ان کے کچھ اشعار جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ تھوڑی سی اور موج میں آاے ہوائے گل تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا۔ یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے محسن طلوع اشک دلیل سحر بھی ہے شب کٹ گئی چراغ بجھا دینا چاہیئے ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہو اکر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا پاکستان کے فن گائیکی کے بے تاج بادشاہ انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ نصرت فتح علی خان نے عظیم شاعر محسن نقوی کی غزل ” کب تک تواونچی آواز میں بولے گا، تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا” گن گنائی جو نصرت فتح علی خاں کو شہرت کے ساتویں آسماں پر لے گئی اور انہیں برطانیہ حکومت نے تمغہء حسن کارکردگی سے نوازا۔ محسن نقوی نے فلم ساز سردار بھٹی کی بھر پور فرمائش پرفلم ” بازار حسن” کے لیئے ایک گیت ” لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے” تحریر کیا جس پر انہیں نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا یوں محسن نقوی کا شمار دنیا کے بڑے گیت نگاروں میں ہونے لگا۔محسن نقوی کا کہنا ہے کہ میں میر، غالب، انیس سے روایتی شعور کا سہارا لے کر علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری اور احمد ندیم قاسمی تک استفادہ کرتا ہوں انہیں مسلسل پڑھتا ہوں اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
محسن نقوی نے 1980 ء میں علامہ اقبال ٹائون لاہور میں ایک خوبصورت گھر تعمیر کروایا جس کا نام نجف ریزہ رکھا۔ نشتر بلاک میں تعمیر شدہ گھر سیاسی ، ادبی، فلمی اور علمی شخصیات کا مسکن بن گیا۔ اسی دوران انہوں نے امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس شروع کیا اور مون مارکیٹ لاہور میں اپنا دفتر قائم کیا۔ قادرالکلام شاعر محسن نقوی نڈر اور بے باک اور دلیر انسان تھے اور دہشت گردوں کے خلاف تھے۔ اور ان مسلمان دشمن دہشت گردوں کے خلاف قلمی جہاد جاری رکھے ہوئے تھے یہی وجہ تھی کہ طاغونی طاقتیں ان کے مخالف تھیں اور انکی جان کی دشمن تھیں انہیں پتہ تھا کہ اگر یہ شخص ہمارے درمیان حائل رہا تو یہ ہمیں اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا اور ہمارے درمیان آہنی دیواریں کھڑی کر دے گا۔ سو دہشت گردوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت 15 جنوری 1996 ء کی شام کو مون مارکیٹ میں انکے دفتر کے سامنے ان کے سینے میں گولیاں اتار کر انہیں شہید کر دیا۔ یوں عالمی دبستان ادب کے افق پر چمکنے والا ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔۔۔۔ محسن نقوی کو ہم سے بچھڑے ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں لیکن محسن نقوی آج بھی اپنے کلام کی وجہ سے عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جب بھی دنیائے ادب کی تاریخ رقم کی جائیگی محسن نقوی کا نام سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ محسن نقوی کی وفات کے بعداردو ادب اپنے ایک خدمتگار اور محسن سے محروم ہو گیا۔ یوں لکھوں تو بے جا نہ ہوگا کہ محسن نقوی ایک عہد کا نام ہے۔ محسن نقوی کا ایک لازوال شعر عمر اتنی توعطا کر میرے فن کو خالق میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
Syed Mubarak Ali Shamsi
تحریر : مبارک علی شمسی (مستقل عنوان)۔۔۔۔۔ مسافر شب ای میلmubarakshamsi@gmail.com