محسن اردو، رومانی، جذباتی، انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی !

Malih Abadi

Malih Abadi

تحریر : اختر سردار چودھری
جوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898 کو پیدا ہوئے اور 22 فروری 1982کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کا اصل نام شبیر حسین تھا 1914 میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا ،اس کے بعر عربی ،انگریزی، فارسی، سنسکرت سیکھی ،عربی مولانا ہادی رسوا سے ،فارسی مولانا قدرت سے ،1916 میں ان کے والد کی وفات کے بعد کچھ مالی حالات کے سبب اور کچھ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے ترجمہ کا کام شروع کیا یہ کام ان کا آبائی کام تھا ان کے والد ،دادا،پردادا دوسری زبانوں کا ترجمہ اردو میں کرتے رہے،اردو کی ترقی میں اس خاندان کا بہت ہاتھ ہے جس کا مختصر ذکر آگے آئے گا ۔ان کو 1925 میں عثمانیہ یونیورسٹی میں ترجمے کے شعبے کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ جوش 1920 سے 1955 تک اطلاعات ونشریات دہلی کے ماہنامہ آجکل کے مدیر رہے ۔انہوں نے نظام حیدر آباد کے خلاف ایک نظم لکھی تو ان کو ریاست بدر کر دیا گیا ۔اس کے بعد ماہنامہ کلیم جاری کیا جو کہ چار سال جاری رہاپھر اسے ماہنامہ نیا ادب میں ضم کر دیا ۔ بہت سی دیگر وجوہات کے ساتھ صرف اس لیے کہ بھارت میںانتہاپسندوں کی طرف سے اردو زبان کو خطرات لاحق ہیں اور پاکستان کی قومی زبان اردو ہے وہاں اردو پھلے پھولے گی اسے ترقی دینے کے لیے ،جوش بھارت چھوڑ کر 1958 میں پاکستان آگئے ۔اگر آج وہ پاکستان میں اردو کا حال دیکھتے جو ہو رہا ہے تو اس فیصلے پر پچھتاتے جس ملک کی قومی زبان اردو ہو لیکن سرکاری زبان انگریزی ہو ،جس ملک کی تعلیم کو مادری زبان کی بجائے انگلش میں رائج کیا جا رہا ہوں ،جس ملک میں سکول میں بچوں کو جرمانہ اس پر ہو کہ اس نے اردو میں بات کیوں کی ،اس ملک کے باسیوں کو ڈوب مرنا چاہیے ۔ جوش کو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بہت روکا کہ پاکستان نہ جائو ،جواہر لال نہرو سے ان کے انتہائی قریبی تعلقات تھے لیکن جوش اردو کی محبت میں پاکستان آ ئے ،اس کی ترتیب ،لغات ،بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ہمراہ اردو زبان کی لغت کے لیے بہت کام کیا ۔افسوس کی بات ہے کہ اس بات کا ہمارے لکھاری بہت کم تذکرہ کرتے ہیں ۔کہ جوش محسن اردو ہیں ۔انہوں نے سائنسی اصلاحات کا اردو میں ترجمہ کیا تا کہ سائنس کو سمجھنا آسان ہو سکے ادبی مجلہ “۔کلیم” میںا ن کے ایک مضمون کا عنوان دیکھیں “ا ردو ادبیات میں انقلاب “کی ضرورت وہ اردو سے محبت کرنے والے شاعر تھے۔

کچھ نقاد کہتے ہیں اقبال ،غالب کے بعد سب سے بڑے شعر جوش تھے ،لیکن نہ جانے شہرت فیض و فراز کو کیوں اتنی ملی ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ پیمانہ کون سا ہے جس پر فیض ،فراز،جوش کی شاعری کے معیار کو تولا گیا ہے ۔فیض و فراز بہت اچھے شاعر ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن جوش کیا کم ا ہم شاعر ہیں ۔باقی چھوڑیں جوش کی صرف کتابوں کے نام ہی اتنے بامعنی ہیں کہ ان کو اسی پر کوئی ایوارڈ دیا جانا چاہیے تھا ۔ان کی کتابوں کے نام آخر میں درج ہیں ۔جوش نہ صرف اردو بلکہ ہندی،فارسی،عربی اور انگریزی میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے ۔انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھر پور معاونت کی ۔انجمن ترقی اردو ،اور دارالترجمہ میں خدمات سرانجام دیں ۔جب ان کو ریاست بدر کیا گیا ان کا جرم یہ تھا کہ ا نہوں نے ریاست حیدر آباد کے والی کی طرز حکمرانی کے خلاف نظم لکھی تھی جس پر ریاست بدر ہوئے ۔انہوں نے ایک ادبی مجلہ کلیم کا آغاز کیا جس میں اردو کی ترقی،حکومت (انگریز)سے نجات،وغیرہ پر کالم لکھے ۔انہوں نے ایک بہت خوبصور ت نظم “حسین اور انقلاب “انہی دنوں لکھی ،جس پر ان کو شاعر انقلاب کے خطاب سے نوازا گیا ۔ جوش نے جوش میں آکر اتنا لکھا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ،اس مختصر مضمون میں یہ ممکن نہیں کہ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے ۔میں صرف ان کی شاعری اور زندگی کی چند جھلکیاں قارئین تک پہچانا چاہتا ہوں ، جوش نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی ان کی سینکڑوں مشہور غزلیں ہیں شعر دیکھیں ۔
ارض و سماء کو ساغر وپیمانہ کر دیا
رندوں نے کائنات کو میخانہ کر دیا
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
جوش نے رباعیات بھی اپنے آپ کو منوایا ،ان کی ایک رباعی دیکھیں ۔
زردار کا خناس نہیں جاتا ہے
ہو آن کا وسواس نہیں جاتا ہے
ہوتا ہے جو شدت ہوس پر مبنی
تا مرگ وہ افلاس نہیں جاتا ہے
جوش نے مرثیہ نگاری بھی کی کہا جاتا ہے کہ میر انیس و دبیز کے بعد ان کے لکھے مرثیے کو بے پناہ مقبولیت ملی ان کا یہ شعر تو زبان زد عام ہے ۔
ذرا انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
انہوں نے فلمی گانے بھی لکھے فلم آگ کا دریا جو اپنے زمانے کی سپر ہٹ فلم تھی میں آپ کے لکھے ہوئے گانے ہیں جن میں سے ایک گانے کا بول تھا ،اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں۔

۔جوش کی نظموں کے صرف نام پڑھ کر ہی ان کے جذباتی وانقلابی شاعری کا اندازہ ہو جاتا ہے ، ان کی ایک نظم کے چند فقرے دیکھیں ۔
اے بستگان گیتی
ندا آرہی ہے آسمان سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جادواں سے
اٹھائے گا کہاں تک جوتیاں سرمایہ داروں کی
جو غیرت ہے تو بنیادیں ہلا دے شہر یاروں کی
ازل سے نوع انسانی کے حق میں طوق لعنت ہے
کسی ہم جنس کی چوکھٹ پہ عادت سر جھکانے کی
جوش نے مذہبی رسم و رواجوں کے خلاف بدعات کے خلاف بہت سی نظمیں لکھیں ایک نظم مجھے بہت پسند آئی نام ہے ” مردوں کی دھوم” اس کے چند فقرے آپ کی نظر ہیں ۔
اوہام کے طوفان اٹھائے ہوئے مردے
عقلوں کو مزاروں پر چڑھائے ہوئے مردے
لیلائے تفکر کو سنورنے نہیں دیں گے
تحقیق کی نبضو ں کو ابھرنے نہیں دیں گے
اس بات کا بیڑا اٹھائے ہوئے مردے
ان ایک نظم” شریک حیات سے خطاب” کو دیکھیں اور بتائیں کسی اور شاعر نے اتنی تندی ،جوش ،کسی اور شاعر نے کب یہ سب کہا ہو گا ۔
اے شریک زندگی اس بات پر روتی ہے تو
کیوں میرا ذوق ادب ہے مائل جام و سبو
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ اہل خانقاہ
ڈاڑھیوں سے ہندیوں کو کر رہے ہیں روسیاہ
کس لیے اس پر نہیں روتی کہ تیرے نونہال
بن رہے ہیں مغربی تہذیب سے رنگ جمال
کس لئے نہیں روتی کہ تھے جو شہسوار
آج ان لڑکوں میں ہے لیلیٰ و سلمیٰ کا نکھار

Pakistan

Pakistan

پاکستان بننے کے بعد جوش کچھ عرصہ بھارت میں رہے ۔جہاں ان کو پدما بھشن ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ پاکستان میں جوش کو بھی حسب روایت اس مردہ پرست قوم نے بعد از مرگ ہلال امتیاز سے نوازا ۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آتی ہماری قوم اپنے اصلی رہنمائوں،حقیقی محسنوں کی قدر کیوں نہیں کرتی جوش اردو سے دین اسلام سے پاکستان سے محبت کرنے والا شاعر جس کی شاعری میں ہر رنگ ہے جن کو شاعر انقلاب کا حقیقت میں خطاب ملا ،جس کا بھارت کا وزیر اعظم دوست تھا جو اس کی خواہش ٹھکرا کر پاکستان آیا ،جس نے اردو زبان کی لغت کی ترتیب میں ہاتھ بٹایا اس کی بجائے پاکستان میں فیض و فراز کو زیادہ کیوں پسند کیا جاتا ہے اور فیض کو تو اکیسویں صدی کا شاعر کہا جاتا ہے حالانکہ یہ بات کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے ۔یہ بات میں فیض کے بارے میں جب میں نے فیچر لکھا (جو کہ کئی ہفت روزہ ،ماہنامہ،اور اخبارات میں شائع ہوا )اس میں بھی لکھی کہ اکیسویں صدی کا شاعر فیض کو صرف اس لیے کہا گیا کہ وہ انقلاب بذریعہ کیمونسٹ کا قائل تھا اور علامہ اقبال انقلاب بذریعہ اسلام کے قائل تھے حکومت پاکستان کی جانب سے 2011 کے سال کو فیض صدی کے طور پر منانے کا علان کیا تھا۔بے شک فیض ایک بہت بڑے شاعر ہیں لیکن بہت سے تجزیہ نگاروں ،قلم کاروں ،کی نظر میں یہ مناسب نہیں تھا ۔یعنی جس بنا (ادب کی خدمت )پر ان کو صدی کا شاعر قرار دیا جا رہا ہے اس پر تو غالب ،جوش،میر زیادہ پورے اترتے تھے ۔غالب کو علامہ اقبال سے بعض بڑا شاعر مانتے ہیں ایسے میں فیض کو صدی کا شاعر قرار دینا میری سمجھ سے باہر ہے۔

اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ ان کو کیمونسٹ خیالات رکھنے کی بنا پر اتنی شہرت ملی اور وہ بیرون ممالک ایک بہت بڑے ادیب کے طور پر جانے گئے ۔ اس سے انحراف نہیں کہ وہ اردو ادب کے ایک معتبر لکھاری ہیں اسی طرح جوش کی شاعری کا معیار کسی بھی طرح فیض سے کم نہیں ان کی پاکستان کے لیے قربانیاں بھی ہیں اور خدمات بھی اس کے باوجود ان کو اکیسویں صدی کا شاعر قرار کیوں نہیں دیا گیا ؟؟؟ان پر لکھاریوں نے کثیر تعداد میں مضامیں کیوں نہیں لکھے ؟؟جوش ملیح آبادی کی بارے میں لکھنے سے پہلے ان کی چند کتابوں کا مطالعہ کیا تو ان کی شاعری میں ڈوبتا چلا گیا ۔بقول خود ان کے بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں خاندانی ،واراثتی ادیب ۔کیونکہ ان کے والد ،دادا،پردادا بھی ادیب ،صاحب کتاب تھے ۔ان کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع ہے انہوں سے اردو کے ہر طرح کے الفاظ استعمال کیے ،الفاظ میں روانی و سلاست بھی ہے ،ان کی نظموں ،غزلوں میں تشبیہات و استعمارے کا خوب استعمال ہے ایسا ان سے پہلے کسی نے اردو میںپے در پے تشبیہات و استعماروں کو استعمال نہیں کیا ۔ان کی شاعری میں ردیف ،قافیہ کا استعمال اور شاعری بھی باوزن ہے ، جوش کثیر التصانیف ادیب تھے،

ان کی وہ کتابیں جو بہت مشہور ہوئیں ان کے نام درج ذیل ہیں کتابوں کے ناموں میں ہی دیکھیں کتنا جوش ہے ۔روح ادب ،آوازہ حق ،شاعر کی راتیں ،جوش کے سو شعر،نقش و نگار،پیغمر اسلام ،حسین اور انقلاب ،آیات و نغمات ،عرش و فرش ،سرورو خروش،سموم و سبا ،طلوع فکر ،موجد و مفکر ،قطرہ قلزم،نوادر جوش،الہام وفکر ،شعلہ و شبنم ،جنون و حکمت ،فکر ونشاط ،سنبل و سلاسل ،حرف و حکایت ،سرود و خروش،عرفانیات جوش،یادوں کی بارات ،رامش و رنگ ،سیف و سبو ،ابہام و افکار ،نجوم و جواہر ،محران و مضراب ،مقالات جوش، اوراق زریں ،مکالمات جوش ،وغیرہ جوش کے بہت سے لطیفے بھی ہیں ایک مولوی کی جوش سے بہت اچھی دعا سلام تھی کئی روز کی غیر حاضری کے بعد جوش سے ملنے آئے ۔تو جوش نے وجہ پوچھی ،تو مولوی کہنے لگے کیا بتائوں جوش صاحب ،پہلے ایک گردے میں پتھری تھی ،اس کا آپریشن ہوا اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ” میں سمجھ گیا اللہ تعالی آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر : اختر سردار چودھری