تحریر : تصدق گیلانی (ریاض، سعودی عرب) ریاض راٹھور صاحب کے ساتھ پہلی بار سعودی دارالحکومت ریاض میں اس سے ملا اپنے دفتر میں ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ھمارا استقبال کیا، کچھ لمحے مجھے غور سے دیکھتا رہا پھر بولا، “میں نے آپ کو کہیں دیکھا ھے”، میں نے اس کی طرف دیکھا اور تھوڑی دیر ماضی کے دھندلکوں میں روشنی کی اس کرن کو تلاش کرنے لگا، کچھ نہ ڈھونڈ پایا۔
چند لمحوں کے توقف کے بعد ھم نے ماضی کے چند اوراق الٹے جونہی “یونیورسٹی کالج آف انجنیرنگ نواب شاہ” کا ذکر آیا، وہ اپنی میز کے پیچھے سے بانہیں پھیلائے میری طرف بڑھا “آجا”. اس نے مجھے ماضی کے جھروکوں میں تلاش کر ہی لیا، جو میں شائد کبھی نہ کر پاتا، کیا بلا کی یاداشت تھی اس کی یہ معین الدین انور میمن تھا، اس لمحے سفارتخانہ پاکستان ریاض میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی کے عہدے پر فائز ماضی کا میرا دوست اور ھم جماعت۔ میرے وھم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ھماری زندگی کا جو دور شروع ہونے جا رہا ہے وہ کتنا خوبصودت مگر مختصر ہوگا، پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
میں نے اسے ایک دھیمے مزاج کا پروقار شخص پایا جس کے سعودی عرب کی مقدس سرزمین پر قیام کا مقصد اہل وطن کے مسائل کو حل کرنا تها وہ ملک و قوم کا درد رکھنے والا انسان تھا. وہ یاروں کا یار تھا دوستوں کو بے پناہ عزت دینے والا ایک نفیس انسان، کبھی کبھار فون نہ سننا اس کی ایک کمزوری مگر شائد اس کی بے پناہ مصروفیت اس کی ایک وجہ تھی، ہم دوست احباب اس پر کبھی سخت الفاظ بھی کہہ دیتے مگر وہ جانے کس مٹی کا بنا تھا مسکراتا اور کہتا “چھوڑ نا یار”۔کچھ عرصہ پہلے ہی “F Block” کے نام سے ھم جماعتوں کا سوشل میڈیا پہ گروپ بنایا ھم سب کو ملا کے خود چلا گیا۔
Riyadh
اس کی زندگی گے آخری ایام میں ملکی اور عوامی بہتری کے کئ خیالات پر گفتگو ہوئی کہنے لگا کہ دبئ سے واپس آکر رمضان کے دنوں میں اس کو عملی جامہ پہنانے پہ بات کرتے ہیں لیکن پھر ۰۰۰ اس کی واپسی نہ ہوئی وہیں سے مسافر لمبے سفر پہ نکل گیا، ہم سب کو غمگین اور حیران چھوڑ کر. معین میمن چند روز پہلے اہلِ خانہ کے ہمراہ دبئی میں سالانہ چهٹیوں کے دوران جان لیوا ہارٹ اٹیک کا شکار ہوا اور اپنے پیچهے دوستوں عزیزوں رشتہ داروں اور بے شمار چاہنے والوں کو سوگوار چهوڑ گیا۔
اے ھمارے رب ہمارے یار کو بخش دے اور اسکی بہترین میزبانی فرما (آمین). معین کے رفیقِ کار ہیڈ آف چانسری سفارتخانہ پاکستان عباس سرور قریشی نے معین کی رحلت پر جو منظوم قلمبند کیا وہ ہمارے بهی دل کی آواز هے ملاحظہ ہو،
سامنے تها مگر اوجهل نکلا ہوا پہ اڑتا وہ بادل نکلا وہ سب کا حامی وہ سب کا بیلی نہیں تها اس سا شہر میں کوئی ڈهونڈے گی نظر ہر صبح اس کو حال دل اب سناؤں گا کس کو وہ سب سے ملتا تها اپنا بن کر رہ گیا اب وہ بس سپنا بن کر کر گیا وہ ہم سبهی کو ششدر نہیں ملے گا معین انور ہمارے لبوں پہ دیکهو یارو وہی آخر وہی اول نکلا ہوا پہ اڑتا وہ بادل نکلا