ماں جیسی ریاست کو ایدھی کا سہارا کیوں

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
عبد الستار ایدھی اس دنیا سے چلے گئے، غریبوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لاکھوں آنکھیں اشکبار ہیں کہ ایدھی اب ہم میں نہیں رہے غریبوں مسکینوں کیلئے یا ان کا دکھ درد رکھنے والوں کیلئے تو یہ ایک المناک خبر ہے کہ انسانیت کی خدمت میں زندگی بسر کرنے والا اس دنیا میں نہیں رہا مگر ان کیلئے کہا جائے کہ جن کے لگائے ہوئے دولت کے انبار بیسیوں، سینکڑوںایدھیوں والا کام کر سکتے ہیں ان کے تعزیتی پیغاموں اور آنسوئوں کی باتوں کواگر مگر مچھ کے آنسوئوں سے تعبیر نہ دی جائے تو اور کیا مثال ہو؟ عبد الستار ایدھی کو اگر دیکھا جائے تو وہ ایک ایسا رول ماڈل تھے جو ایک طرف تن تنہا غریبوں بے سہاروں لاوارث انسانوں کے سروں پر دست شفقت رکھ رہے تھے تو دوسری طرف بے حسی اور خود غرضی کے افلاطونوں دانشوروں کے منہ پر طمانچہ تھے۔عبد الستار ایدھی اس معاشرے کی بھیانک تصویر کو سامنے لانے والا وہ کردار تھا جویہ بتا رہا تھا کہ اسلامی جمہوری ریاست اپنے فرائض کو نبھانے سے قاصر ہے۔

ایدھی کا وجود ان کی کوششیں اور کاوشیں آخری ایام تک ہمیںیہ باور کروارہی تھیں کہ اسی روش پر چلتی رہی تو یہ ریاست بہر حال عام باسیوں اور بے سہارا لوگوں کو تحفظ اور خدمت فراہم کرنے سے معذور رہے گی ۔مولانا عبد الستار ایدھی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد وہی لوگ سب سے زیادہ دکھی نظر آرہے ہیں جو انسانوں کے روپ میں اس دھرتی پر انسانوں کو ہی بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اور موقع ملتے ہی چیر پھاڑ کر انسانوںکی بے بسی کا مذاق اڑاتے ان کے دکھوں سے بے نیاز، ذاتی مفادات حاصل کرتے ، خاندانوں سمیت برسوں سے یہاں حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں اور پھر تمام تر ریاستی وسائل کو عوام الناس کی خدمات کے نام پر لگانے کے نام پر ڈکارنے کے علاوہ ملک اور ملک سے باہر اپنے بھاری اثاثے بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہیں جو انسانیت کی خدمت کانام تو لیتے ہیں مگر ان کے عمل میں اپنے اور اپنے خاندانوں کی مالی خدمت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا جن کا پورا پور اخاندان سرکاری وسائل پر موج مستیاں کرتاہے اور یہ لوگ ملک کے لاکھوں کروڑوں مستحقین کو دھتکار کر اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے دنیا میں موج مستیاں پیدا کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے وہ دنیا کی ہر باز پرس سے آزاد ہیں کسی کی غربت، بیماری ، پریشانی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

Pakistan

Pakistan

ریاست یوں تو وہ ماںہوتی ہے جواپنی عوا م کو اولاد کی طرح تحفظ فراہم کرتی ہے مگر یہ کیسی ماں ہے جو اپنے عوام کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں کرتی یہ کیسی ماں ہے جو اپنی اولاد سے سبھی مال ومتاع تو چھین لیتی ہے کبھی ٹیکسوں کی صورت میں کبھی جرمانوں کی صورت میں تو کبھی لوٹ مار کے ذریعے مگر اسے تحفظ فراہم نہیں کرتی یہ کیسی ماں ہے جس کی ذمہ داریاں آخر کسی ایدھی کو ہی نبھانا پڑتی ہیں ؟ اگر یہ ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی تو یہاں کبھی کوئی ایدھی جنم ہی نہ لیتا۔ ایدھی اس وقت ہی ریاست میں سامنے آتے ہیں جب ریاست ماں ڈاکوئوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہو جب یہ ماں چوروں کے ساتھ ملی ہو جب اس ماں کو اپنی اولاد کے دکھ درد اور اصل تکالیف کا اندازہ ہی نہ ہوتو پھر یونہی ہوتا ہے جو اس ملک کے کروڑوں غریب عوام کیساتھ ہورہا ہے کسی کو ہسپتال میں داخلہ نہیں ملتا تو کوئی داخل ہو کر بھی سرکاری عملہ اور ڈاکٹروںکے شاہی رویے کی نذر ہوجاتا ہے اور پھر شکایت کی صورت میں کہیں شنوائی نہیں ہوتی الٹا ہتک عزت کی جاتی ہے جب ریاست ڈاکوئوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہو تو پھر تھانوں کچہریوںسے انصاف کی توقع عبث ہے اپنے آپ کیساتھ دھوکہ ہے۔

جب ریاست ماں ظالموں کے ساتھ راہ و رسم بڑھا رہی ہو تو پھر سڑکوں پر آپ کو حادثات کی صورت میں مرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے آپ مریںیا جیئیں کسی کو اس سے کچھ غرض نہیں ہوتی پھر یہ ماں سوتیلی سے بھی بدتر بلکہ دشمن کا روپ دھار جاتی ہے اپنے اختیارات کو صرف اپنی اولاد کو دبانے یا غیر ضروری طور پر پابند بنانے کیلئے استعمال کرتی ہے جب یہ ماںایسے افراد کے ہاتھوں میں کھیلے جنہیں بس حکمرانی کا ہی شوق ہو تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو عبد الستار ایدھی کے دیس میں ہورہا ہے لوگ پھر غربت جیسے خوف سے اپنی اولادوں کا پیدا ہوتے ہی قتل عام شروع کردیتے ہیں یہ تو ایک ایدھی تھا جس نے دنیا میں آنے والوں کو مرنے کی بجائے زندہ رہنے کا سہارا دیا اور کہا کہ آئو ان معصوموں کو جو کسی طرح دنیا میں آگئے ہیں قتل نہ کرو اور ایدھی جھولوں میں ڈال جائو جنہیں اولاد کی طرح پالا پوسا گیا۔

Edhi Foundation

Edhi Foundation

کیا یہ ذمہ داری بھی ریاست کی نہ تھی ؟ سڑکوں پرحادثات کے نتیجہ میں تڑپتی عوام اولاد کو بروقت علاج گاہوں تک پہنچانے کی ذمہ داری کیا ریاست کی ہی نہ تھی ؟بے گوروکفن لاشوں کو ٹھکانے لگانے؟ غریبوں مساکینوں بے سہاروں کو چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری کیا کسی ریاست کی ہی نہیں ہوتی؟ بھوکوں کو کھلانا ان کی ضروریات کا خیال رکھنا کیا ماں ہی یہ ذمہ داری نہیں نبھاتی ؟ مگر کیا ہے کہ یہاں ریاست کی ذمہ داری ایدھی کو سنبھالنا پڑی کہ ملک کے کونے کونے میں ایدھی نے خدمت خلق کا بیڑہ اٹھایا ریاست غائب ہی نظر آئی یہاں بسنے والوں کا اپنی ہی ریاست ماں سے اعتبار جاتا رہا دیکھا جائے تو ایدھی اس معاشرے اس ریاست ماں اور اس کے حکمران یاروں کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے جو کبھی پانامہ لیکس کی زد میں آتے ہیں تو کبھی کسی لیکس میں۔ 69برسوں میں آج بھی یہ ریاست خودکو کسی ایدھی کے سہارے پر ہی چلتا دیکھنا چاہتی ہے۔

شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ان کیلئے جو اس ریاست کے یار ہیں جو کئی بار یہاںحکمران منتخب ہوئے مگر ہر بار اس کے باسیوں کیساتھ دھوکہ کیا اپنے خاندان اور کاروبار تو مضبوط کئے مگر ریاست کے اداروں اور وسائل کو کمزور کردیا ان میں سے کبھی کسی نے خود کو ایدھی بنانے کا نہیں سوچا ، ذمہ دار ہونے کے باوجودیہاں کے لوگوں کو تحفظ نہ دیااور بس منہ زبانی بیانات اور دنیا سے چلے جانے والوں کیلئے بس افسوس کا اظہار ہی کیا آنسو بہائے مگر مچھی، تف ہے افسوس ہے۔۔۔۔ ایدھی صاحب کے چلے جانے سے حکمران طبقہ کے رسمی بیانات بتا رہے ہیں کہ یہ ریاست یتیم ہوگئی ہے ۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عبد الستارایدھی کی مغفرت فرمائے اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین!

AQEEL LODHI

AQEEL LODHI

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
0334-4499404