مومند ایجنسی (حیران مومند) مومند ایجنسی فاٹا کا آہم ترین حصہ ہے۔ اٹھ تحصیلوں پر مشتمل یہ پہاڑی اور غیر آباد علاقہ افغانستان کے دو صوبوں ننگرہار اور کونڑ کے ساتھ دو آہم تجارتی روٹس کے زریعے سے جاملتی ہے۔ اگر یہ تجارتی روٹس بحال ہوسکے تو معاشی مشکلات یکسر ختم ہوسکتے ہیں۔ مگر مومند قبائل کی تقدیر میں تاحال یہ خوشی ناپید ہے۔ تعلیم و صحت، پانی و بجلی اور روزگار جیسے بنیادی ضروریات سے محرومی تو عرصہ دراز سے یہاں پر ڈھیرے ڈال چکا ہے جبکہ سیاسی ماحول بھی دیگر قبائلی ایجنسی کی نسبت قدر غیر خوش گوار ہے مگر غیر غیر ممکن نہیں کہ فاٹا کی سیاسی میں انمٹ نقوش چھوڑ سکے۔ اکثر دیکھا گیا کہ مقامی سطح پر سیاسی کارکنان متعلقہ سیاسی جماعتوں میں نئے آنے والے لوگوں کو پسند نا پسند کے ترازو پر تول کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے مرکزی راہنماء جسے عرف عام میں قومی لیڈر شپ کہا جاتا ہے ۔ فاٹا میں جمہوری اور سیاسی اقدار کی فروغ کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں اور یہ روش عرصہ سے چلی ارہی ہے کہ فاٹا کو برائے نام ریاست پاکستان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ الغرس سیاسی شعور کی بیداری ، جمہوریت اور مہذب سیاسی ماحول کا نہ ہونا مقامی سیاسی کارکنوں کی غیر سنجیدگی اور جارہانہ رویوں کی وجہ سے ہیں۔
فاٹا میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے اور قومی الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے نشانات اور منشور میں حصہ لینے کی اجازت چند سال پہلے دی گئی مگر سیاسی جماعتوں کی سست روی اور زاتی پسند و ناپسند کے سبب بہترین سیاسی فضا نہ بن سکی اور سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کو پارٹی پالیسی، دستور اور منشور کے حوالے سے تربیت کی اشد ضرورت ہیں۔
تاکہ سیاسی کارکنان برداشت اور جمہوری رویوں پر عمل پیرا ہوکر قوم کو FCR کی دلدل سے نکال سکے اور مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایک دوسرے کو برداشت کیا جاسکے دلائل کو گفتگو اور مکالمے کا حصہ بنا کر غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ کرسکے۔
دراصل سیاسی جماعتیں ملک کی بنیادی معاملات و مسائل کے حوالے سے مثبت رائے عامہ پیدا کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی سیاسی تعلیم و تربیت کرکے منظم انداز میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھا سکے تاکہ عوام مہذب انداز میں ایک جموری معاشرہ تشکیل دیکر کردار ادا کرسکے۔
فاٹا میں سیاسی جماعتوں ابھی ابھی سیاسی فضا بنانے کے لئے کام کرنے کا موقع ملا ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کو رائے عامہ کو اپنی نکتہ نظر کے عین مطابق ہموار کرانے کے لئے کافی عرصہ ملا ہیں جمعیت اسلام (ف) اور جماعت اسلامی مہمند ایجنسی کے تمام تحصیلوں میں عہدیداران اور کارکنان کے حوالے سے مالامال ہیں۔ لیکن بعض بنیادی حامیوں کو نظر انداز کرکے مہمند قبائل کو مطمئن نہ کرسکے۔ جے یو آئی ف اندرونی طور پر اختلافات اور گروبندیوں کا شکار جماعت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملنے کے باوجود خاطر خوا خدمت خلق نہ کرسکے۔ ساتھ ہی ایف سی آر اور فاٹا کو صوبہ پختون خوا میں شامل کرنے پر جے یو آئی ف کا موقف غیر واضح ہے۔ اور انتظامی تبدیلی کے اس اہم ایشو پر مقامی قیادت کو پارٹی کے مرکزی قیادت نے یرغمال بنا رکھا ہے اور زمینی قیادت سے عدم آگاہی کا مظاہرہ کرہے ہیں۔ اس طرح جماعت اسلامی بھی عرصہ دراز سے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام کا مذہبی نعرہ لگا رہے ہے۔ سالانہ شیڈول پر سیاسی جدوجہد میں مصروف جماعت اسلامی کے کارکنان کو عوامی سطح پر وہ پزیرائی نہ مل سکی جسکی توقع اسے اپنی طرز سیاست پر تھی۔ عوام اب سمجھ چکے ہیں کہ جماعت والے عوام پر پارٹی ورکرز کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے راہنماوں کا کہنا ہیں کہ ائی ڈی پیز کیمپوں میں اور واپسی کے عمل میں ان کے کارکنان نے عملی طور پر خدمت میں حصہ لیا ہیں۔
مہمند ایجنسی میں قومی وطن پارٹی کا نام تو لیا جاتا ہے مگر مختلف الخیال افراد کو اکٹھا کیا گیا ہیں مگر تاحال تنظیم سازی کی ابتدائی عمل سے گزر رہی ہے ۔ ایجنسی میں بعض تانگہ پارٹیاں بھی الیکشن کے دنوں میں نمودار ہوتی ہیں اور الیکشن کا جزباتی گرد بیٹھنے سے مطلع صاف ہوجاتا ہے۔ سارے فاٹا کی طرح مہمند ایجنسی میں بھی تبدیلی کا نعرہ زور و شور سے لگا اور پاکستان تحریک انصاف کے جذباتی اور سیاسی ماحول میں نابالغ نوجوان قیادت نے خاموش اور خوف زدہ ماحول میں ارتعاش پیدا کیا، مگر دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح اندرونی اختلافات اور گروہ بندیوں نے تحریک اور انصاف کو الگ الگ راستوں پر ڈال دیا۔ مشاہدے کی کمی ، غیر مہزب رویوں اور سیاسی نا پختہ گیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ نقصان اُٹھایا اور تاحال وہی عمل دوبارہ ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔
مہمند ایجنسی کے بے اب و گیا پہاڑوں اور وادیوں میں قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی کارکنوں کی جدوجہد روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے اور پارٹی کو خاطر خوا مقبولیت مل رہی ہے ۔ ہر تحصیل میں فعال عہدیداران کے زریعے خدائی خدمت گار باچا خان بابا کا پیغام عدم تشدد عام کیا جارہا ہے ۔ پارٹی نے ایف سی ار کے خاتمے اور فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے شامل کرنے پر دو ٹوک موقف اپنایا ہے اور سیاسی عمل میں موجودگی کا زبردست احساس دلایا ہے۔ علاقے کے عوام کا کہنا ہے کہ اے این پی کے راہنماء نثار خان مومند ایک جراتمند ، باعلم ، باخبر اور سیاسی اصولوں پر کاربند سیاسی کارکن ہے اور عوام کے حقوق کے لئے ہر فورم پر موثر آواز اُٹھانے کی آہلیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ شدید گرمی کے اس موسم میں بھی شمولیتی پروگرامات کرتے ارہے ہیں۔
سرزمین معدنیات مہمند ایجنسی میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنا وجود سلامت رکھنے کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ اور مختلف مواقع پر مرکزی قیادت اور پالیسیوں پر عمل درامد کرنے کے لئے تقریبات کا انعقاد کرتی ارہی ہیں ۔ تحصیل وائز تنظیمی فعالیت تسلی بخش نہیں مگر مقامی قیادت نے خواتین قیادت کو موقع دینے کے لئے خواتین کنونشن کا انعقاد کرکے جمہوری اور آزاد سیاست کی طرف ایک کامیاب قدم اُٹھایا ہے جو کہ فاٹا کی تاریخ میں نہیں ملتا۔پی پی پی ایف سی ار کے مکمل خاتمے کے حق میں ہے اور فاٹا کو صوبہ پختون خوا میں ضم کرنے کی مکمل حق میں ہے۔ مقامی سطح پر خاطر خوا پزیرائی کے لئے پی پی پی راہنماوں کے پاس ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہیں۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ پارٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق افضل کے سوا کوئی دوسرا موثر اور فعال شخصیت سامنے نہیں ایا۔ جو کہ پارٹی کے بانی کا نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے کو عام کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ مرکزی سطح پر پی پی پی کے دور حکومت میں فاٹا کی عوام کے لئے کوئی احسن اقدام نہیں اُٹھایا اور یہی حال برسراقتدار مسلم لیگ ن کا بھی ہے۔
مسلم لیگ ن بھی مہمند ایجنسی میں اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ پارٹی ورکرز ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر نالاں ہیں ۔ ن لیگ کے مقامی کارکنان نے تنظیمی ڈھانچہ کی عدم تکمیل ، پسند و ناپسند اور وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود سیاسی میدان میں تشتگی محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ صوبہ پختون خوا میں پارٹی کا گورنر موجود ہونے کے باوجود ن لیگ نے نہ تو سیاسی میدان اور نہ ترقیاتی میدان میں کوئی خاطر خوا کامیابی حاصل کی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر پارٹی میں اختلافات ختم ہونے کے باوجود بڑھ رہے ہیں۔ ایجنسی کے باشعور اور تعلیم یافتہ طبقے کو ن لیگ کا ایف سی ار اور فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے موقف واضح نہ ہونے کی وجہ سے مختلف تحفظاف جنم دے رہی ہیں۔
مہمند ایجنسی میں آباد مومند قبیلہ ، صافی ، شینواری اور اتمان خیل قبیلوں کا مشترکہ اور موثر آواز بننے ، سیاسی ماحول بنانے اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے سیاسی اتحاد بھی قائم کیا گیا ہے مگر سیاسی اتحاد بھی بے شمار مصلحتوں کا کا شکار رہا ہے۔ کسی بھی سیاسی یا قومی ایشو پر سیاسی اتحاد کو جلسہ جلوس کرنے کی سعادت نصیب نہ ہوسکی۔ کیونکہ سیاسی اتحاد کے عہدیداران کا قومی ایشوز اور سیاسی معاملات پر ہم اہنگی بلکل نہیں۔
مہمند ایجنسی کے سطح پر سیاسی جماعتوں اور مقامی سیاسی کارکنوں کے خامیوں نے ایجنسی میں موثر اور فعال سیاسی ماحول نہیں بن پایا اور جمہوریت کو تقویت نہیں ملی۔ اسباب واضح ہیں کہ مقامی سیاسی کارکنوں کو ایف سی ار ، اصلاحات، پارٹی پالیسی و منشور سے اگاہی کا شدید فقدان ہیں۔ عالمی انسان حقوق کے منشور سے لاعلمی ، غیر جمہوری اور غیر مہذب رویوں نے سیاسی ماحول کو نقصان پہنچایا اور معاشرے کے اندر عدم برداشت ، خاندانی اونچ نیچ، حسب و نسب اور تفرقہ بازی نے جنم لیا۔ باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق، پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی ، اے این پی کے میاں افتخار حسین اور سردار حسین بابک، اور جے یو ائی کے راہنماء ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مولانا عبدالغفور حیدری نے مہمند ایجنسی میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہیںاور مقامی پارٹی ورکروں کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہیں اور ہر پارٹی اپنی استطاعت کے مطابق سیاسی فائدہ حاصل کررہے ہیں جو کہ جمہوری اور مہذب رویوں کو پروان چڑھانے کے لئے نیک شگون ہیں۔
دوسری جانب مقامی انتظامیہ نے سیاسی کارکنوں کو ہر سطح پر دبانے کے بے شمار حربے استعمال کئے ہیں اور سیاسی جلسہ جلوس کے انعقاد کے لئے سیکورٹی مشکلات کا بہانہ بناتی ارہی ہے۔ اور اس کا عملی مظاہرہ چند روز پہلے وفاقی حکومت کی وزیر مملکت ماروی میمن کے دورہ غلنئی مہمند کے دوران دیکھا ، سنا اور ساتھ ساتھ محسوس بھی کیا جو کہ ایف سی ار کے پاسداران کا پسندیدہ مشعلہ ہے۔ دیکھتے ہے اس گھپُ اندھیرے سے جمہوری اُجالا کب نمودار ہوتا ہے۔