تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر سولہ دسمبر ایک ایسا دن جب میری دھرتی ماں کے گلشن کو بزدل دشمن نے تاراج کرنے کی ناپاک جسارت کی دشمن کی ذلالت نہیں بلکہ رذالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس کے مقابل کوئی جوان نہیں دھرتی ماں کے نونہال تھے جنہیں یزید صفت دشمن نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر مادر وطن کے مستقبل کو خون میں نہلا دیا آہ سولہ دسمبر کے ہندسے کو جب میں نے کلینڈر پر دیکھا تو وہ مجھے خون سے تر دکھائی دینے لگا اس ہندسے کے پس منظر سے شہدائے آرمی پبلک سکول مجھے وطن کی محبت سے سر شار آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ دیکھ لو ہم سب نے بچپن اور نو عمری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کے ثابت کیا ہے کہ ہم فرزندان پاکستان ہیں جو حقیقت میں مادر وطن کا بیٹا ہوتا ہے وہ اس کی آن پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ ہم نے کر دکھایا دشمن کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا کر دم لیا اب آپ لوگوں پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں کہ ماں دھرتی کے تقدس کو کبھی داغدار نہ ہونے دینا اور اگر کوئی دشمن یا لبادئہ دوستی میں دشمن پاک دھرتی کی عفت و عظمت پہ داغ لگانے کی جسارت کا ارادہ بھی کرے تو اپنے خون سے بھی وہ داغ دھو ڈالنا تب ہی آپ سچے اور حقیقی فرزند کہلانے کے حقدار ہو۔
قارئین کرام ان بچوں کی باتیں میری سماعتوں میں گونجتی رہیں اور میں سوچ کے عمیق سمندر میں غوطہ زن ہو گیا کہ کیا وہ مائیں جنہوں نے صبح کے وقت اپنے بچوں کو سکول کی یونیفارم زیب تن کروا کر پھولوں کی طرح شگفتہ چہروں کو سکول بیگ آراستہ کر کے دیئے ہوں گے اور ممتا بھری شفقت سے عازم سکول کیا ہو گا ان پہ وہ خبر کہ آپ کے لخت جگر دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ایک ہی ساعت میں ہزاروں برق گرا کر گزر گئی ہو گی وہ لمحہ کتنا دلگداز ہو گا جب والدین نے اپنے بچوں کے اجلے سکول یونیفارم خون میں تر بتر دیکھے ہونگے ایک سو بتیس لاشے جس مکتب سے مثل مقتل اٹھے ہوں گے وہ قیامت خیز منظر آج بھی مائوں کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا نہیں ہو گا جب میں یہ سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے کلیجہ کٹ رہا ہے یقین جانیں اس وقت ان دھرتی کے کمسن جاں نثاروں کو یاد کرتے ہوئے لکھ تو رہا ہوں اور میری آنکھیں ہیں کہ روانی کے ساتھ آنسو بہانے میں مصروف ہیں ذرا وہ منظر خود پہ طاری کر کے دیکھیں کہ آپ اپنے بچوں کو ہنستے کھیلتے سکول روانہ کریں اور واپسی کی امید رکھیں مگر واپسی پر آپ کی نظروں کے سامنے بیٹے کا کھلکھلاتا ہوا چہرہ لہو میں تر وجود لئے ساکت و جامد ایک لاشے کی صورت میں سکول سے واپسی ہو تو کیا بیتے گی۔
آپ کے دل پر اسی طرح سانحہ اے پی ایس کے شہداء کی مائیں مجھے تو آج تک منتظر نظروں سے اپنے بچوں کے آنے کی آس لگائے دروازے پر نظریں جمائے دکھائی دے رہی ہیں ۔خدا لعنت کرے ایسے بزدل دشمن پر جس نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ایک مکتب کو مقتل میں بدل ڈالا اور سلام پیش کرتا ہوں ان معصوم شہداء کی ارواح کو بالخصوص مسز قاضی کو جنہوں نے ان بچوں کے لئے اپنی جان جان آفرین کو سونپ کر استاد کے حفظ ع مراتب کو آفاقی بلندیوں سے نوازا میری پاک دھررتی کے تمام غیور اساتذہ ان سلام عقیدت پیش کرتے ہیں ۔آج پھر سولہ دسمبر کا سورج طلوع ہوا تو کربلائے آرمی پبلک سکول کا خون آشام منظر آنکھوں کے سامنے آرہا ہے ۔خدا غارت کرے ان درندوں کی نسلوں کو بھی جو دہشتگردی کا زہر میری ارض پاک کی رگوں میں نچوڑ چکے ہیں ، نچوڑ رہے ہیں یا نچوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں ایسے ہر ہر دہشتگرد پر لعنت جو معصوم جانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں خواہ وہ ہندوستانی بھیڑیئے ہیں ،کسی بے ضمیر و لا دین شدت پسند تنظیم کے رکن ہیں ،مذہبی لسانی یا سیاسی گروہ کے پروردہ ہیں جو میری ماں دھرتی کے دشمن ہیں اس کے مستقبل کو مارنے کے درپے ہیں میرا مالک ان سب کو نیست و نابود فرمائے۔(آمین)۔
Peshawar Army School Reopen
میرا سلام ہے ان بلند حوصلہ مائوں پر جنہوں نے اپنے بچوں کے لاشے تو دیکھے مگر اسی شان سے سکول کے دوبارہ کھلتے ہی اپنے باقی بچوں کو سکول روانہ کر کے دنیا ایک پیغام دیا کہ دیکھو ہم پاکستانی مائیں ہیں لاشیں دیکھ کر گھبرانے کی بجائے شہداء کی مائوں کا درجہ پا کر اسی مکتب میں اپنے دوسے بچوں کو بھیج رہی ہیں جنہیں بزدل دشمن نے مقتل بنا ڈالا تھا ۔ میرا سلام ہو ان بہادر اور بلند حوصلہ والدوں کو جنہوں نے بچوں کی شہادت کے باوجود یہ کہا کہ مادر وطن کی آن کی خاطر ہم ہر طرح کی قربانی کے لیئے اب بھی تیار ہیںبزدل اس طرح کے اوچھے وار کر کے غیور پاکستانی قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکتا یہ قوم کل بھی ناقابل تسخیر تھی آج بھی ناقابل تسخیر ہے اور انشاء اللہ تعالی کل بھی ناقابل تسخیر رہے گی۔
کمینے دشمن کا مقابلہ اس قوم سے ہے جس کے بچے بہادری اور جاں نثاری کا درس ماں کے مقدس دودھ سے لے کر پروان چڑھتے ہیں جس کا ایک لازوال ثبوت دنیا نے آرمی پبلک سکول کے بچوں کی صورت میں بچشم خود دیکھ لیا کے جب اس عظیم قوم کے عظیم نوخیز ایک دوسرے کی جان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اک دوسرے کے سامنے آکر قاتل کو بھی ورطہء حیرت میں ڈال رہے تھے واہ کیا ذوق شہادت تھا کیا لافانی جذبہء ایثار تھا ان طلباء کا کہ دنیا آج تک انگشت بدنداں محو حیرت ہے ۔ میری دھرتی ماں رشک کرتی ہے ایسے ننھے شہیدوں پر جن کے سکول کے بورڈ پر لفظ آرمی رقم تھا اس لفظ کی حرمت کو ثابت کر دکھایا ان معصوم شہداء نے کہ ہم نو عمر سہی مگر پاک آرمی کے جیالے ہیں دھرتی کے رکھوالے ہیں ماں دھرتی کے پالے ہیں ہم عزم و ہمت والے ہیں ہم بچے نہیں سپاہی ہیں اور ہم حق کے راہی ہیں
ایسے عظیم عزم و حوصلے کے حامل کمسن شہداء کو ساری قوم سلام پیش کرتی ہے ۔ سنا تھا کہ اے پی ایس کے شہداء کی یاد میں ملک بھر میں عام تعطیل ہوگی اگر ایسا ہو تو ان شہداء کو خراج عقیدت ہو گا حکومت اور قوم کی طرف سے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ ایسا ہوگا کہ ہمارے حکمران ان شہداء کو فراموش کر رہے ہیں ۔ جس طرح ان شہداء کے سانحے نے ساری قوم کو ایک کر دکھایا تھا جب تمام طاقتیں بشمول حکومت و اپوزیشن ایک ہوگئے تھے جب ان کمسن شہداء کی شہادت کے صدقے میں حکمرانوں سے دھرنے کا عتاب ٹل گیا تھا اور تحریک انصا ف نے بھی دنیا کا طویل تر دھرنا چھوڑا تھا انہی شہداء کی بدولت ہوا اب ملی یکجہتی کو مد نظر رکھتے ہوئے کمسن شہداء کا یوم شہادت ملکی سطح پر یاد رکھنے کے لیئے ضروری ہے کہ سولہ دسمبر کو تعطیل عام کا اعلان کر دیا جائے کیونکہ غیور قومیں اپنے شہداء کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔
Dr MH Baber
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail;mhbabar4@gmail.com