کچھ رشتے لمحوں میں قائم ہوجاتے ہیں لیکن سالوں کے تعلق سے بڑھ کر مضبوط ہوتے ہیں۔کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب اس لڑکے نے شہر کے ایک سرکاری کالج میں داخلہ لیا۔اس لڑکے کا زیادہ وقت دوستوں کی محفل یا پھر لائبریری کی کتابوں کے درمیان گزرا کرتا تھا۔اس نوجوان کو شروع سے ہی اچھے لوگوں کی صحبت میں رہنا اچھا لگتا تھالیکن پڑھائی کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔کمرہ جماعت کا ماحول کچھ مختلف ہوا کرتا ہے اس لڑکے کو کلاس کا ماحول نہ بھایا تھا اس کی مختلف وجوہات تھیں شاید اس کے مطابق کلاس کا ”اینوائرمنٹ ” کچھ زیادہ ہی ”گھٹن زدہ” ہے یااس لڑکے کی ”دلچسپیاں”کچھ اور ہی تھیں۔
اس کالج کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے اس ادارے میں دو ایسے اساتذہ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن کا نام ادب و صحافت میں لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔جن کے بغیر علمی،ادبی اور صحافتی محفلیں جمتی تو ہیں لیکن رنگ تبھی نظر آتا ہے جب یہ موجود ہوں۔پہلے پہلے دن اجنبی ہوا کرتے ہیں چاہے وہ کالج کے ہوں ،یا سکول کے یا یونیورسٹی کے۔۔۔۔راستے اجنبی ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔چہرے اجنبی ہوا کرتے ہیں ۔۔۔خیر ان دنوں دو نام اس ادارے میں اکثر دہرائے جاتے تھے ایک نام سن کر طلباء کے چہرے رنگ تیزی سے بدلتے تھے اس نوجوان نے بڑی آوازوں کے ”لیول” گرتے دیکھے ایسا ناجانے کیا تھا اس نام کے پیچھے یہ ”’بھید” بڑے دنوں بعد اس لڑکے پر آشکار ہوا۔
البتہ دوسرا نام لیتے ہوئے طلباء کے چہروں پر چمک واضح ہوتی تھی اس کیفیت کو بھی کومناسب الفاظ میں بے خوفی کہہ لیجیے۔دن گزرتے گئے ایک دن اس ڈرے سہمے لڑکے کو کالج کے میگزین کی ادارتی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں اس مرتبہ اس لڑکے کا سامنا اس دوسرے نام سے تھاجو سن رکھا تھا اس سے کچھ مختلف نہ پایا شفقت والا رویہ دیکھ کر نوجوان کا حوصلہ کچھ بڑھا۔پھر یہ ملاقاتیں لمحوں سے منٹوں۔۔۔منٹوں سے گھنٹوں میں بدل گئیں ،طویل نشستیں جمنے لگیں نوجوان کی حوصلہ افزائی ہونے لگی تھی۔اس نوجوان کے ذہن میں آنے والے سینکڑوں سوالوں کے جواب ملنا شروع ہو گئے تھے جس سے نوجوان کی ”سپیڈ” مزید بڑھ گئی تھی۔شہر کی علمی و ادبی محفلوں میں کہیں نا کہیں اس نوجوان کا نام بھی آنے لگا تھااس میں اس نوجوان کا کوئی کمال نہ تھا ۔آج نوجوان پیچھے مڑ کر دیکھتا تھاتو ان دنوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین دنوں میں شمار کرتا ہے۔
ان سطور کے لکھنے والے نے کبھی ان سہانے دنوں کا تصور بھی نہیں کیا تھا وہ دو نام ہمیشہ کے لیے لکھنے والے کے دل میں بس گئے۔آج بھی جب راقم کوئی ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھ پاتا ہے تو اس کے دل سے ان دو ناموں کے لیے دعائیں نکلتیں ہیں۔میرے اساتذہ کرام کا نام توفیق بٹ اور عباس تابش ہے۔ جب خبر آئی کہ استاد محترم عباس تابش کو ان کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز دیا جا رہا ہے تو مجھے وہ سب محفلیں اور شامیں یاد آگئیں جو استاد محترم کے ساتھ گزری تھیں۔خوشی کی سرشاری کی کیفیت بھی عجیب ہوتی ہے نا یہ بتائی جا سکتی نا ہی لفظوں میں بیان کی جا سکتی ہے۔سچ پوچھیں تو یہ تمغہ امتیاز کے لیے ایک اعزاز ہے کہ وہ موجودہ دورکے غزل کے بے تاج بادشاہ عباس تابش کے پا س جا رہا ہے۔
Abbas Tabish
جہان پاکستان کے ادارتی صفحات سے منسلک ہونے کی خوشی اس لیے بھی مجھے بہت تھی کہ استاد محترم خاکسار کی تحریر پر بھی نظر کیا کریں گے۔ 15جون 1961ء کو میلسی ضلع وہاڑی میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ بچہ ایک دن اتنا نام کمائے گا کہ میلسی کی سرزمین اپنے اس سپوت پر فخرکرے گی۔ آپ دوران تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور میں رسالہ ”راوی” کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں زمانہ طالبعلمی میں جب طالبعلموں کے مشاغل کچھ اور ہی ہوا کرتے ہیں اس وقت اردو کا یہ عظیم شاعر گورنمنٹ کالج کے درختوں کی چھائوں میں بیٹھ کر یہ شعر لکھ رہا تھا
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں عباس تابش کی ہر غزل میں زندہ شعر ملتا ہے،بلاشبہ عباس تابش موجودہ غزل کا نمائندہ شاعر ہے۔عباس تابش کا ماں جیسی عظیم ہستی پر لکھا گیا ایک شعر کئی شعرا کی کلیات پر بھاری ہے۔عباس تابش میرے دکھ درد کے ساتھی ہیں اور مجھے ان کی شاگردی پر فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ۔۔۔!
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اْٹھ کر چپ چاپ ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں