کراچی (جیوڈیسک) معاشی ترقی ہدف سے کم ہے تو کیا ہوا؟ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح دس سال کی بلند ترین سطح پر یعنی 5 اعشاریہ 3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ سے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں تیزی آئی جبکہ زرعی اور بڑی صنعتوں کی پیداوار نے معیشت کو سہارا دیا۔ اس کے علاوہ کم شرح سود کے باعث نجی شعبے کے قرضے 50 فیصد اضافے سے 503 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
دوسری جانب سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ برآمدات میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ خلیجی ممالک میں معاشی سست روی کے باعث بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات میں کمی آ رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے باعث مشینوں کی درآمدات سے امپورٹ بل بڑھ رہا ہے۔ اُمید ہے کہ عالمی ادائیگیوں اور وصولیوں کے اس فرق کو سی پیک منصوبے کے تحت آنے والی غیرملکی سرمایہ کاری سے قابو کرنے میں مدد ملے گی۔
مرکزی بینک کے مطابق، معاشی سرگرمیوں میں تیزی کے باعث عوام کی بڑھتی ہوئی قوت خرید اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے سے مہنگائی کے زور پکڑ جانے کا خدشہ ہے جس کے باعث شرح سود کو مستحکم رکھا گیا ہے۔